بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

باریک چادر (جس سے عورت کے بال نظر آرہے ہوں،یا بدن معلوم ہورہا ہو اس) کی خرید وفروخت کیسی ہے؟


سوال

باریک چادر کی خرید وفروخت کیسی ہے؟ باریک چادر سے مراد وہ چادر ہے جس سے عورت کے بال نظر آرہے ہوں،یا بدن معلوم ہورہا ہو۔

جواب

واضح رہے کہ اگر خرید وفروخت کی شرعی شرائط کے مطابق لباس کی خرید وفروخت کی جائے تو شرعی اصول کی رو سے وہ کاروبار جائز ہے، لیکن لباس کا تعلق صرف کاروبار سے نہیں بلکہ لباس کا تعلق انسان کے کردار واخلاق کے ساتھ بھی ہے، اس لیے دینِ اسلام نے لباس میں حدود مقرر کی ہیں، اور یہ شرط رکھی ہے کہ:

وہ ستر کو چھپانے والا ہو، ایسا تنگ وچست نہ ہو کہ جسم ڈھلکتا ہو، اور اعضاء کی ساخت نمایاں ہوتی ہو، چاہے مردوں کا ہو، عورتوں کا ہو یا بچوں کا۔

ایسے ہی عورت کےلیے ایسا لباس پہن کر گھر سے باہر نکلنا، یا غیرمحرموں کے سامنے آنا جس میں اس کا ستر بمع بالوں کے چھپتا نہ ہو‘ شرعاً جائز نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کاروبار (کی خرید و فروخت)میں شرعی شرائط کی خلاف ورزی نہ ہو تو یہ کاروبار اپنی جگہ جائز ہے، اسی طرح عموماًاس قسم کی (باریک)چادر کو چونکہ اوڑھنے کے علاوہ دیگر کاموں میں بھی استعما ل کیا جاسکتا ہے، اور عورت کےلیے اپنے گھر میں شوہر اور دیگر محارم کے سامنے اس قسم کی چادر پہننا شرعاً جائز بھی ہے،  تو اصلاً اس کے خریدنے یا بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن اگر دکان دار کویہ معلوم ہو کہ عورتیں یا کوئی اور  اگر خرید کر شریعت کے خلاف استعمال کرے گا تو اس صورت میں اس قسم کی چادر بیچنا مکروہ ہے، اور  اگر دکان دار کو یہ معلوم نہیں کہ خریدار اس کو جائز کام میں استعمال کرے گا یا گناہ میں، جبکہ اس چادر کے جائز استعمال کا محل موجود بھی ہے، تو اس صورت میں خریدار اگر خرید کر گناہ کے کام میں استعمال کرے تو اس کا وبال اس کے  اپنے ذمہ رہے گا، دکان دار سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

قرآن کریم میں ہے:

"يا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشاً وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ."   (الأعراف:26)

ترجمہ:”اے اولاد آدم کی ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری پردہ داریوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس‘ یہ اس سے بڑھ کر ہے۔“ (بیان القرآن)

مشكاة المصابيحمیں ہے:

"وعن عائشة أن أسماء بنت أبي بكر دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليها ثياب رقاق فأعرض عنه وقال: يا أسماء إن المرأة إذا بلغت المحيض لن يصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا . وأشار إلى وجهه وكفيه. رواه أبو داود."

ترجمہ: ”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، اور انہوں نے باریک کپڑے پہن رکھے تھے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت ایام حیض کو پہنچ جائے یعنی بالغ ہو تو اس کے جسم کا کوئی عضو بھی سوائے ان ک اوران کے ظاہر نہ ہونا چاہیے او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔“ (مظاہرِ حق جدید)

(کتاب اللباس، الفصل الثالث، 2/ 390، ط:رحمانیة)

جواہر الفقہ میں ہے:

”دوسری قسم سبب قریب کی وہ ہے کہ ہے تو سبب قریب مگر معصیت کے لئے محرک نہیں بلکہ صدور معصیت کسی دوسرے فاعل مختار کے اپنے فعل سے ہوتا ہے، جیسے بیع عصیر عنب ممن يتخذه خمراً يا اجارة دار ممن يتعبد فيها الأصنام وغیرہ کہ یہ بیع واجارہ اگر چہ ایک حیثیت سے سبب قریب ہے معصیت کا، مگر جالب اور محرك للمعصیۃ نہیں، شیرۂ انگور خریدنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو شراب ہی بنائے اور گھر کو کسی مشرک کے لئے کرایہ پر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس میں بت پرستی بھی کرے، بلکہ وہ اپنی خباثت یا جہالت سے اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے، شیرہ بیچنے والا یا مکان کرایہ پر دینے والا معصیت کا باعث اور محرک نہیں ہے۔

ایسے سبب قریب کا حکم یہ ہے کہ اگر بیچنے یا اجارہ پر دینے والے کا مقصد اس معصیت ہی کا ہو، تب تو یہ خود ارتکاب معصیت اور اعانت معصیت میں داخل ہو کر قطعاً حرام ہے۔ اور اگر اس کا قصد و نیت شامل نہ ہو، تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ اس کو علم بھی نہ ہو کہ یہ شخص شیره انگور خرید کر سرکہ بنائے گا یا شراب، یا گھر کرایہ پر لے کر اس میں صرف سکونت کرے گا، یا کوئی نا جائز کام فسق و فجور کا کرے گا ، اس صورت میں یہ بیع و اجارہ بلا کراہت جائز ہے، اور اگر اس کو علم ہے کہ یہ شخص شیره انگور خرید کر شراب بنائے گا ، یا مکان کرایہ پر لے کر فسق و فجور کرے گا یا سودی کاروبار کرے گا ، یا جاریہ کو خرید کر اس کو گانے کے کام میں لگائے گا ، یا امرد کو خرید کر اس سے سیاہ کاری میں مبتلا ہو گا یا لوہا خرید کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے گا ، تو اس صورت میں یہ بیع واجارہ مکروہ ہے۔“

(ناجائز کاموں میں تعاون،ج:7، ص:512،  ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں