بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے سے بڑے گناہ گار کی توبہ بھی قبول ہے


سوال

کیا بڑے سے بڑا گناہ گار بھی معاف ہوسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

  گناہوں سے معافی کے لیے  سچی توبہ ضروری ہے،اگر گناہ گار بندہ صدقِ دل کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں توبہ کرے تو اللہ تعالٰی بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف فرمادیتے ہیں،سچی توبہ کے    تین رکن ہیں:

(1)اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری۔

حدیث میں ارشاد ہے:

"إنما التوبة الندم"  "یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے."(سنن ابن ماجہ ،باب ذكر التوبة1420/2ط:داراحیاء الکتب العربیۃ)

(2)جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ  اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

(3)تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کی قدرت میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے، فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تھوڑی تھوڑی ادا کرتارہے، کسی انسان کا حق اس کے ذمہ  ہے تو اس کو ادا کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتا۔

 اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے،چاہےہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔

(مستفاد مع تغییر معارف القرآن 2 /342دارالعلوم کراچی)

 لہٰذا جس شخص سےگناہ سرزد ہوگیا ہو اگر  وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

دینِ اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كل ابن آدم خطاء وخير الخطائين ‌التوابون "

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘

(سنن الترمذی،أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،611/4ط:مصطفیٰ البابی ،مصر )

گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ  کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلاً:

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"[الزمر:53]

ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔" (بیان القرآن)

توبہ کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: "یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘"(بیان القرآن)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"التائب من الذنب، كمن لا ذنب له"

"گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔"

(سنن ابن ماجہ ،باب ذكر التوبۃ1419/2ط:داراحیاء الکتب العربیۃ)

اس سے معلوم ہوا کہ بندہ جب توبہ کرلیتا ہے تو وہ فاسق وفاجر نہیں رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

"{ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(4)إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5)}" [النور: 4 - 5]

ترجمہ : " اور جو لوگ (زنا) کی تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو  اور پھر چار گواہ (اپنے دعوے پر) نہ لا سکیں تو ایسے لوگوں کو اسّی درّے لگاؤ اور  ان کی کوئی گواہی قبول مت کرو (یہ تو دنیا میں ان کی سزا ہوئی) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی مستحق سزا ہیں اس وجہ سے ہے کہ) فاسق ہیں۔ لیکن جو لوگ اس (تہمت لگانے) کے بعد ( خدا کے سامنے) توبہ کرلیں اور (اپنی حالت کی) اصلاح کرلیں سو (اس حالت میں) اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرنے والا ہے۔"(از بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں