بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے جانور (گائے، بیل اور اونٹ ) میں عقیقہ کا ثبوت


سوال

ہم نے مقامی علماء سے پوچھ کر اپنے بھتیجے  کی پیدائش پر ایک بھینس ذبح کر کے عقیقہ کیا، کچھ روز قبل کسی غیر مقلد نے کہا کہ اس طرح ایک بڑے جانور  سے عقیقہ کرنا درست نہیں ہے، اس نے مزید کہا کہ لڑکے کے عقیقہ کے لیے  دو جان قربان کرنا چاہیے، اس نے مجھ سے میرے اس عمل پر دلیل کا مطالبہ کیا ہے، حال آں کہ میں اپنے علماء  کے بتائے  ہوئے  مسئلے  پر مطمئن ہوں، اس مسئلے پر آپ  کی کیا رائے  ہے؟

جواب

بڑے جانور  (گائے، بیل اونٹ) سے بھی عقیقہ  ہوسکتا  ہے، اسی طرح ایک گائے یا اونٹ میں  جس طرح  قربانی کے سات  حصے ہوتے ہیں اس طرح سات عقیقے بھی ہوسکتے ہیں۔  یہ حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت بھی ہے۔

المعجم الصغير للطبراني (1 / 150):

"عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ فَلْيَعِقَّ عَنْهُ مِنَ الْإِبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ» لَمْ يَرْوِهِ عَنْ حُرَيْثٍ إِلَّا مَسْعَدَةُ تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَعْرُوفٍ."

المعجم الكبير للطبراني (1 / 244):

"حدثنا أبو مسلم، ثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، ثنا قتادة، «أن أنس بن مالك كان يعق عن بنيه الجزور»."

فتح الباري (9 / 593):

"والجمهور على إجزاء الإبل والبقر أيضاً، وفيه حديث عند الطبراني وأبي الشيخ عن أنس رفعه: يعق عنه من الإبل والبقر والغنم. ونص أحمد على اشتراط كاملة. وذكر الرافعي بحثاً أنها تتأدى بالسبع، كما في الأضحية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6 / 326):

"[تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد أيضاً؛ لأن نصيبه شائع، كما في الخانية، وظاهره عدم جواز الأكل منها، تأمل. وشمل ما لو كانت القربة واجبةً على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا، كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافاً لزفر؛ لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں