بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے جانور میں سات سے کم شرکاء کی صورت میں گوشت کی تقسیم کا طریقہ


سوال

قربانی کے  بڑے جانور  میں کتنے لوگ  شرکت کر سکتے  ہیں ؟  اگر سات افراد سے کم لوگ شرکت کریں تو کیا سات حصے کرنا ضروری ہوگا نہیں؟ مثلا : اگر چار پانچ افراد ایک گائے میں شریک ہوتے ہیں تو گائے کے چار پانچ حصے کیے جائیں  گے یا سات حصے کرنا لازمی ہوگا؟ ہمارے ہاں بعض حضرات سات حصوں کو لازم قرار دیتے ہیں اور حوالہ "آپ کے مسائل اور ان کا حل"  بتاتے ہیں کہ اس میں مولانا صاحب نے فرمایا کہ سات حصے کرنا ضروری ہے۔  رہنمائی فرمادیں !

جواب

بڑے جانور  (گائے، بھینس، اونٹ وغیرہ)   میں  زیادہ  سے  زیادہ  سات حصے کرنا جائز ہے، سات سے زیادہ حصے منع ہیں، پورے سات حصوں کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے  ہیں۔

اگر کسی گائے میں سات سے کم افراد شریک ہوں اور سب نے برابر برابر رقم ادا کی ہو  تو افراد کی تعداد کے حساب سے گائے میں حصے تقسیم کیے جاسکتے ہیں؛   لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں گائے کی قیمت مثلاً : 60000 روپے ہو اور ہر فرد نے 10000 روپے  دیے ہوں تو گائے کے چھ برابر حصہ کرکے ہر شریک کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے، سات حصے کرنا لازم نہیں ہے۔

قربانی میں شرکت اور گوشت کی تقسیم میں صرف اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو، (مثلًا:  ساٹھ ہزار روپے کی گائے میں کسی بھی شریک کی شراکت آٹھ ہزار پانچ سو بہتر روپے سے کم نہ ہو)  زیادہ  ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

’’عَنْ جَا بِرٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَ جْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰه صلی الله علیه و سلم مُھِلِّیْنَ بِالْحَجِّ ، فَاَمَرَنَا رَسُوْلَ اللّٰہه صلی الله علیه وسلم اَنْ نَّشْتَرِك فِي الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ کُلُّ سَبْعَةٍ مِّنَّا فِي بَدَنَة ‘‘.

(صحیح مسلم:ج1،ص424 باب جواز الاشتراک الخ)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات ( آدمی)شریک ہو جائیں۔

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب آپ کے مسائل اور ان کا حل (4/ 214) میں  ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے  کہ :

"دو تین حصہ دار بھی ہوسکتے ہیں ، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حصہ ایک سے کم نہ ہو، یعنی حصے پورے ہونے چاہییں، مثلًا:  ایک کے تین اور دوسرے کے چار، یا ایک کا ایک اور دوسرے کے چھ۔"

اس عبارت سے اگرچہ سات حصے کرنے کا ضروری ہونا معلوم ہوتاہے، لیکن  یہاں بظاہر حصوں سے مراد گوشت کے حصے نہیں، بلکہ رقم کے اعتبار سے حصے ہیں، یعنی کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، مثلًا ایک نے تین حصوں کے بقدر رقم ملائی اور دوسرے نے چار حصوں کے بقدر، یا ایک شریک نے ایک حصے کی رقم دی اور دوسرے نے چھ حصوں کے بقدر۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 317):

"ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه.

 (قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لاتشترط؛ لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں