بارات والوں کو کھانا کھلانا کیاسنت کےخلاف ہے؟
بارات میں آنے والوں کو کھانا کھلانا سنت کے خلاف تو نہیں ہے،لیکن سنت اور مستحب بھی نہیں ہے،شادی کے کھانےمیں صرف ولیمہ کا کھانا مسنون ہے،تاہم اگر لڑکی والے نام ونمود سے بچتے ہوئے، کسی قسم کے مطالبہ اور خاندانی دباؤ اور اپنے اوپر لازم کیے بغیر خوشی ورضا سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کو ضیافت کی خاطر کھانا کھلائیں تواس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه."
(كتاب الأطمعة، باب الضيافة، الفصل الأول، ج: 2، ص: 1224، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے تو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔“
وفیہ ایضاً:
"وعن عكرمة عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن طعام المتباريين أن يؤكل."
(كتاب النكاح، باب الوليمة، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 962، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ان دو آدمیوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایاہے جو آپس میں فخر کا مقابلہ کرے۔“
”الْمُتَبَارِيَيْنِ“ ان دوشخصوں کو کہتے ہیں جو زیادہ کھانے کا آپس میں مقابلہ کریں اور ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش ہوکہ وہ دوسرے کی ضد میں زیادہ سے زیادہ کھانا پکوائےاور زیادہ لوگوں کی دعوت کرے،تاکہ وہ برتر اور دوسرا کمتر رہے، گویا اس مقابلہ سے دونوں کا مقصد اظہار فخر اور محض نام ونمود ہو،چنانچہ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیاگیاہے کہ ان کی دعوت کو نہ قبول کیا جائے اور نہ ان کے کھانے میں شرکت کی جائے۔“
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(وعن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن طعام المتباريين) : بياء مفتوحة أي: المتفاخرين (أن يؤكل) : بهمز ويبدل، في النهاية المتباريان هما: المتعارضان بفعليهما ليس أنهما يغلبه صاحبه، وإنما كره ذلك لما فيه من المباهاة والرياء، وقد دعي بعض العلماء فلم يجب فقيل له: إن السلف كانوا يدعون فيجيبون قال: كان ذلك منهم للموافاة والمواساة، وهذا منكم للمكافأة والمباهاة. وروي أن عمر وعثمان رضي الله عنهما دعيا إلى طعام فأجابا فلما خرجا قال عمر لعثمان: لقد شهدت طعاما ووددت أن لم أشهد. قال: ما ذاك؟ خشيت أن يكون جعل مباهاة."
(كتاب النكاح، باب الوليمة، الفصل الثاني، ج: 5، ص: 2110، ط: دار الفکر)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:
"قال: (ووليمة العرس سنة) قديمة وفيها مثوبة عظيمة، قال - عليه الصلاة والسلام -: «أولم ولو بشاة» ، وهي إذا بنى الرجل بامرأته أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما."
(كتاب الكراهية، ج: 4، ص: 176، ط: مطبعة الحلبي)
کفایت المفتی میں ہے:
لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔
باب العرس والولیمۃ، ج: 7، ص: 471، ط: فاروقیہ)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔
( باب العروس والولیمہ، ج: 12، ص: 142، ط:فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102148
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن