بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کے پیچھے تراویح پڑھنا


سوال

 میں ایک میڈیکل سٹوڈنٹ ہوں جس شہر میں پڑھنے آیا ہوں محلّے میں ساری مسجد یں بریلوی بھائیوں کی ہیں ،تو کیا ان کے پیچھے تراویح کی نماز ہو جائےگی؟ یا میں ہاسٹل کی چھت پر اپنے دوستوں کے ساتھ تراویح کی  جماعت  سورتوں کے ساتھ  پڑھ سکتا ہوں؟ اگر میں چھت پر اس طرح جماعت پڑھتا ہوں تو ہمارے لیے زیادہ آسانی ہے،کیوں کہ میڈیکل سٹوڈنٹ کو دن رات ملا کر کم سے کم 10 گھنٹےکتاب پڑھنا پڑتا ہے ، مسجد ہمارے ہاسٹل سے 650 میٹر دور ہے جس کے وجہ سے آنے جانے میں بہت وقت لگ جائےگا۔

جواب

اگر بدعتی امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے مانند ہر جگہ حاضر و ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل سمجھتا ہے تو یہ شرک ہے، کیونکہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر ناظر ، عالم الغیب اور مختار کل ہونے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہو جاتے ہیں، اور کلمہ طیب اور کلمہ شہادت کی شہادت کے خلاف ہو جاتا ہے، اس لئے جان بوجھ کر ایسے عقائد رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، پڑھنے کی صورت میں لوٹانا لازم ہوگا اور اگر لاعلمی میں پڑھ لی تو ہو جائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی ،ایسی صورت میں اپنی جماعت الگ  کریں ،اور تراویح میں  قرآن مجید ختم کرنے کی کوشش کریں،کیونکہ  یہ  سنت ہے۔

1:اور اگر بدعتی امام موحد ہے شرکیہ عقائد نہیں رکھتا ہے صرف تیجہ ، چالیسواں وغیرہ جیسی بدعات میں مبتلا ہے، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے صحیح عقید ہ والا امام مل جائے تو بدعتی امام کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیئے اور اگر صحیح عقید وہ والا امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے فرض نماز پڑھ لے ، جماعت نہ چھوڑے ایسی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ، البتہ متقی پرہیز گار امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتناثواب ملتا ہے اتنا ثواب نہیں ملے گا،اور تراویح کی نماز بہر صورت ہو سٹل کی چھت پر پڑھنا جا ئز ہے۔

2: بدعتی کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ، ہاں اگر حاضرین میں سارے بدعتی میں متقی پرہیز گار کوئی نہیں تو اس صورت میں بدعتی امام کی امامت بدعتی مقتدیوں کے لئےمکروہ نہیں ہوگی ۔

اور بدعتی وہ ہے جو ایسا کام عبادت سمجھ کر کرے جس کی اصل شریعت میں نہ ہو یعنی قرآن سنت، اجماع اور قیاس سے اس کا ثبوت نہ ہو۔

  بدعتی گناہ کو عبادت سمجھ کر کرتا ہے اس لئے موت تک اس کو تو بہ نصیب نہیں ہوتی ، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی مریض مرض کو مرض نہیں سمجھتا بلکہ مرض کو صحت سمجھ کر علاج نہیں کرا تا اور مر جاتا ہے۔ اس لئے بدعتی کی امامت فاسق سے بھی بدتر ہے ۔

لہذاصورت مسئولہ میں محلےمیں دوسری مسجد موجود ہو تووہاں نماز پڑھےاگر موجود نہ ہوتوبد عتی بریلوی امام کےپیچھےجماعت ادا ہو جائےگی،البتہ بہتر  یہ ہےکہ سائل فرض نماز اسی مسجدمیں پڑھےتراویح اپنے دوستوں کے ساتھ ہاسٹل میں پڑھے، البتہ ختم قرآن کی ساتھ پڑھنے کی کو شش کرے تاکہ سنت ترک نہ ہو اوراگر ہاسٹل میں ختم قرآن نہ ہوسکتا ہو توپھر تراویح بھی مسجد میں ہی پڑھے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

 (كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، ‌‌الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره،ج:1،ص:84، ط:رشيديه)

بدائع الصنائع میں  ہے:

"وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة."

(كتاب الصلاة، ‌‌فصل بيان من هو أحق بالإمامة وأولى بها، ج:1، ص:157، ط:دار الكتب العلمية)

مجمع الانہر میں ہے:

"(بجماعة) أي إقامتها بالجماعة سنة فمن ترك التراويح بالجماعة وصلاها في البيت فقد أساء عند بعضهم فالصحيح أن إقامتها بالجماعة سنة على وجه الكفاية حتى لو ترك أهل المسجد كلهم الجماعة أساءوا وأثموا ولو أقامها البعض فالمتخلف عنها تارك الفضيلة، وإن صلاها بالجماعة في البيت فقد حاز إحدى الفضيلتين وهي فضيلة الجماعة دون فضيلة الجماعة في المسجد."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، فصل في التراويح، ج:1، ص:136، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں