بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی امام کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

 کیا بریلوی امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟

جواب

   اگرکوئی شخص نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کو ایسی صفات جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں (مثلاً: ہروقت ہرجگہ حاضرناظر،مختارِکل،عالم الغیب والشہادہ وغیرہ سے) اس طرح متصف نہ مانتاہو جس طرح اللہ تعالیٰ کو مانتاہے، بلکہ اس میں کو ئی تاویل کرتاہو، یعنی کہتا ہو کہ: اللہ تعالیٰ  کے لیے یہ صفات بالذات ہیں اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ صفات  اللہ تعالی کی عطا ہیں، اسی طرح آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے بشرہونے کابالکلیہ انکار نہ کرتاہو، بلکہ تاویل کرتا ہو تو ایساشخص مشرک نہیں بلکہ بدعتی ہے اور بدعتی کو عام حالات میں اپنے اختیارسے امام بنانامکروہ ِتحریمی یعنی ناجائز ہے اور جانتے ہوئے بغیر کسی مجبوری کے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنامکروہ ہے۔         

     لہذا جس بریلوی  امام کی بدعات کفر و شرک تک نہ پہنچی ہوں تو اس کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے، لیکن مکروہِ تحریمی ہوتی ہے، ثواب میں کمی آجاتی ہے؛ اس لیے اگر آپ نماز کے لیے کسی ایسی مسجد میں جاسکتے ہوں جہاں کے امام   کا عقیدہ اہل سنت والجماعت  کے عقیدے کے  موافق ہو تو آپ  بدعت کے مرتکب  امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً  ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے،  جماعت نہ چھوڑیں، البتہ متقی پرہیزگارکے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

ہاں! اگر کسی امام کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

 البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهةأما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ... وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا، وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لاتكون بدعته تكفره فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لاتجوز، وعبارة الخلاصة هكذا، وفي الأصل: الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة.

وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره ولا تجوز الصلاة خلف من ينكر شفاعة النبي أو ينكر الكرام الكاتبين أو ينكر الرؤية لأنه كافر."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 370)،ط. دار المعرفة، بيروت)

فتاوى هنديه میں ہے:

"قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره (1/ 84)،ط, رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 562)،ط. سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں