بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث اپنے ناخنوں کو کاٹو کیونکہ کہ بڑھے ہوئے ناخنوں پر شيطان بیٹھتا ہے کی حقیقت


سوال

 امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب احیاء العلوم کے حوالے سے ایک حدیث ذکرکی جاتی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: ابو ہریرہ،  اپنے ناخنوں کو کاٹو؛ کیونکہ  بڑھے  ہوئےناخنوں پر شيطان بیٹھتا ہے، کیا یہ حدیث ہے؟ 

جواب

مذكوره روايت  امام غزالي رحمه الله (المتوفى: 505ھ)کی کتاب  ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بغیر سند کے ذکر کی گئی ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا هريرة! أقلم أظفارك؛ فإن الشيطان يقعد على ما طال منها.

ترجمہ: اے ابو ہریرہ! اپنے ناخنوں کو کاٹو کہ اس کے بڑھے ہوئے حصہ پر شیطان بیٹھتا ہے۔

(إحياء علوم الدين،كتاب اسرار الطهارة ،القسم الثالث من النظافة التنظيف عن الفضلات الظاهرة، النوع الثاني فيما يحدث في البدن من الأجزاء، (1/185) ،ـ ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)

حافظ عراقی رحمہ اللہ (جنہوں نے   امام غزالي رحمه اللہ کی کتاب  ’’احیاء علوم الدین‘‘ کی تخریج فرمائی ہے) اس روايت كي تخريج   میں ذکر فرماتے ہیں :

أخرجه الخطيب في الجامع بإسناد ضعيف من حديث جابر: قصوا أظافيركم؛ فإن الشيطان يجري ما بين اللحم والظفر. 

يعني  اس روايت كو خطيب بغدادی  نے اپنی کتاب ’’الجامع‘‘ (الجامع لاخلاق الراوی) میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند کےساتھ   نقل کیا ہے،  الفاظ یہ ہیں کہ: تم لوگ اپنے ناخنوں کو کاٹ لو ،کیونکہ شیطان گوشت اور ناخنوں کے درمیان چلتا ہے۔ 

(المغني عن حمل الأسفار في الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبار بذيل أحياء علوم الدين، كتاب اسرار الطهارة ،القسم الثالث من النظافة التنظيف عن الفضلات الظاهرة، النوع الثاني فيما يحدث في البدن من الأجزاء، (1/ 185)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت) 

مذكوره روايت جو تخريج میں  حافظ عراقي رحمه الله نے ذکر فرمائی ہے ، وہ احیاء علوم الدين كي روایت کے پورے طور پر ہم معنی نہیں ہے، کیونکہ اُس میں بڑھے ہوئے ناخن کے حصہ پر شیطان کے بیٹھنے کا تذکرہ ہے، جبکہ اِس روایت میں ایسی کوئی بات مذکورنہیں ہے ، اس لیے اس روایت کو احیاء علوم الدين کی  روایت کے لیے اصل نہیں بنایا جا سکتا۔

علامہ مرتضی زبیدی رحمہ اللہ (المتوفی: 1205ھ) نے  حافظ عراقی  رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام کو نقل فرمانے کے بعد لکھا ہے: 

قلتُ: ورواه ابن عساكر أيضًا في تاريخه من حديث جابر، إلا أن لفظه ولفظ الخطيب: خللوا لحاكم، وقصوا أظافركم، والباقي سواء.

يعني  علامه زبيد ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس روایت کو  ابن عساکر رحمہ اللہ   نےبھی اپنی تاریخ میں حضرت جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا ہے، مگر یہ کہ خطیب کے الفاظ یہ ہیں : "خللوا لحاكم، وقصوا أظافركم"  بقیہ روایت ایک جیسی ہے۔

(اتحاف السادۃ المتقین، (2/ 410 و411)، ط/ طبع حجري هندى)

علامه زبيدی رحمه الله كي مذكوره تخريج سے بھی یہی معلوم ہوا کہ  احیاء علوم الدين كي روايت  کے لیے یہ روایت اصل نہیں بن سکتی  ،  بلکہ ابن عساکر رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت اس روایت کامفہوم ادا کر رہی ہے ،جسے  حافظ عراقی رحمہ اللہ نے خطیب رحمہ اللہ  کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث  ہے لیکن ضعیف ہے، لہذا بیان کرتے وقت اس طرح بیان کرے کہ امام غرالی ؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے ۔۔۔البتہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

فقط واللہ اعلم   


فتوی نمبر : 144204200932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں