بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

برف باری والے علاقوں میں وضواورغسل کے لیے تیمم کرنے کا حکم


سوال

وہ علاقے جہاں پر برف باری ہوا کرتی ہے اور ٹیمپریچر منفی ڈگری میں ہوتا ہے، پانی گرم کرنے کا کوئی امکان  نہیں ہوتا، ایسی صورت میں   ان علاقوں میں میں فرضیتِ غسل  اور فر ض نمازوں  کو تیمم کے ساتھ ادا کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں سردی میں وضو کرنے کی خوب فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی طرح یہ  بھی واضح رہنا چاہیے کہ  طہارت کے   حصول میں   اصل   یہ ہے کہ پانی سے طہارت حاصل کی جائے ،جب تک پانی سے  وضو اور غسل کرکے طہارت حاصل کرنا ممکن ہواس وقت تک  تیمم کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں    پا نی سے وضوکرنے کی حتی الوسع کوشش کی جائے  ، جب  تک   پانی سے وضواور غسل کرنے کی صورت میں جان جانے،یا کسی عضو کے تلف ہونےیا مرض کے بڑھ جانے کا خوف نہ ہو تو اس صورت میں پانی سے وضو اور غسل کرنا ضروری ہے، تیمم کی طرف جانے کی اجازت نہیں اور پانی  سے   وضو اور غسل کرکے  مشقت اٹھانے پر عنداللہ اجرِ عظیم کے  مستحق  ٹھہریں گے،لیکن اگر واقعۃً وضو سے جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہونے یاپھر  بیماری کے بڑھنے کا یقین ہو یا اہلِ تجربہ کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ألا أدلكم على ما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: إسباغ الوضوء على المكاره، وكثرة الخطا إلى المساجد، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، فذلكم الرباط."

(ج:1، ص: 105،ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہوں کو دھونے والی چیز مشقت کے موقع پر (ٹھنڈک میں) وضو کرنا، مساجد کی جانب قدم بڑھانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ہے، یہی گناہ سے بچنے کی سرحد اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔"

 فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي. واختاره في الأسرار. لكن الأصح عدم جوازه إجماعاً، كذا في النهر الفائق. والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.....ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم".

(ج:1، ص: 28، ط: دارالفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506102608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں