بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

برابر والے نمازی کے پاؤں سے پاؤں ملانے والی حدیث کا مطلب


سوال

نماز میں برابر والے کے پاؤں سے پاؤں ملانے کی سلفی حضرات کی دلیل کا احناف کیا جواب دیتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جیسے احادیث میں پاؤں کو پاؤں سے ملانے کا ذکر ملتاہے، (جس پر سلفی حضرات عمل کی کوشش کرتے ہیں)اسی طرح احادیث میں کندھوں کو کندھوں سے اور گھٹنوں کو گھٹنوں سے ملانے کا بھی ذکر ملتاہے، اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی جماعت کی نماز میں بڑی مشقت سے اپنے گھٹنے اور پاؤں برابر والے نمازی کے گھٹنوں اور پاؤں سے ملابھی لے، تو  ایسی حالت میں کندھوں کو کندھوں سے ملانا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے، اس وجہ سے علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں لکھاہے کہ احادیث میں کندھوں کو کندھوں سے ملانے اور قدم کو قدم سے ملانے کا مقصد صفوں کو سیدھاکرنا اور درمیانی خلاؤں کو ختم کرناہے،یہی مفہوم ائمہ اربعہؒ سےبھی ثابت ہے، صحابہ اور تابعین کا بھی یہی معمول رہاہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."

(كتاب الصلاة ،باب تسوية الصفوف ج:1ص:178 ط:المكتبة العصرية)

فتح الباری میں ہے:

"‌‌(قوله باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف)المراد ‌بذلك ‌المبالغة ‌في ‌تعديل ‌الصف وسد خلله وقد ورد الأمر بسد خلل الصف."

(‌‌قوله باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف، ٢١١/٢، ط:دار المعرفة)

فیض الباری میں ہے:

"باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم فى الصفوقال النعمان بن بشير رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه.

725 - حدثنا عمرو بن خالد قال حدثنا زهير عن حميد عن أنس عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال «أقيموا صفوفكم فإنى أراكم من وراء ظهرى». وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه قال الحافظ: المراد بذلك المبالغة في تعديل الصف وسد خلله. قلت: وهو مراده عند الفقهاء الأربعة، أي أن لا يترك في البين فرجة تسع فيها ثالثا...والحاصل: أنا لما لم نجد الصحابة والتابعين يفرقون في قيامهم بين الجماعة والانفراد، علمنا أنه لم يرد بقوله إلزاق المنكب إلا التراص وترك الفرجة، ثم فكر في نفسك ولا تعجل: أنه هل يمكن إلزاق المنكب مع إلزاق القدم إلا بعد ممارسة شاقة، ولا يمكن بعده أيضا؟ فهو إذن من مخترعاتهم، لا أثر له في السلف."

(كتاب الأذان، باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم فى الصف، ٣٠١/٢، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

البحرالرائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ‌ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامة،٣٧٥/١ ط:دارالکتاب الاسلامی)

 علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"والحاصل ان المرادھو التسویة و الاعتدال لکیلا یتاخر او یتقدم، فالمحاذاۃ بین المناکب و الزاق الکعاب کنایة عن التسویة."

 

(معارف السنن،ج:٢، ص:٢٩٨)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:نماز میں ٹخنہ سےٹخنہ ملانا چاہیے یا نہیں؟ کیاحدیث یا فقہ میں اس کی ممانعت ہے یا اس کا ثبوت ہے؟

الجواب:علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے،اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا،علاوہ ازیں   ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا  بہت دشوار ہےاور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں ،البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے،آگے پیچھے نہ رکھے،تاکہ صف سیدھی رہے،یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے،یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"

(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں