بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بارات کی شرعی حیثیت


سوال

ہم بھائیوں کے رشتہ کی بات طے ہوئی ہے، میری چاہت یہ ہے کہ مکمل سنت کے مطابق جیسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا ویسی شادی کروں، گھریلو ماحول بھی دین داری والا ہے، شاید ہم دونوں بھائیوں کی شادی اکٹھی ہو،  تو میرے محترم بڑے بھائی صاحب کا کہنا ہے کہ بارات میں کافی لوگ جائیں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ سنت کے مطابق ہو ،باقی جو غیر شرعی امور ہیں ان کو سب گھر والے اللہ کی ناراضگی کا سبب ہی سمجھتے ہیں،  مہندی، نیوتہ، گانے، رسم و رواج وغیرہ ان کو وہ بھی غلط ہی کہتے ہیں،  صرف بارات  کے بارے میں کہتے ہیں کہ زیادہ لوگ جائیں گے، اب اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

 نکاح اور رخصتی کابہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے پھر نکاح کے بعد   لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے، مروجہ بارات( جس میں کثیر تعداد میں لڑکے کے گھر سے لوگ جاتے ہیں) شادی  کا کوئی مسنون طریقہ نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امِ حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی شادی میں دلہن کو لانے کے لیے ایک آدمی (شرحبیل بن حسنہ  رضی اللہ عنہ) کو بھیجا تھا، خود دلہن کے گھر نہیں گئے،  اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں یہ  بھی معمول تھا کہ لڑکی کاباپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی دوسرے معتمد کے ہم راہ دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں  بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے  کہ آپ کی والدہ آپ  کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچا کر آئیں ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے تھے نہ آپ نے کسی کو بھیجا تھا، اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امِ ایمن رضی اللہ عنہا (جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ باندی تھی) کے ساتھ روانہ فرمایا تھا، اس لیے صورتِ مسئولہ میں  مروجہ بارات    سے بچنا چاہیے، البتہ  قریبی رشتہ دار اور مخصوص دوستوں کے ساتھ  غیر شرعی امور سے بچتے ہوئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة، فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمزق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي أم رومان، وإني لفي أرجوحة، ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها، لا أدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا ‌نسوة ‌من ‌الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين."

(كتاب فضائل الصحابة،  باب تزويج النبي صلى الله عليه وسلم عائشة، وقدومها المدينة، وبنائه بها، ج: 3، ص: 1414، ط: دار ابن كثير)

صحیح ابن حبان میں ہے:

"وقال لعلي: "إذا أتتك فلا تحدث شيئا حتى آتيك" فجاءت مع أم أيمن حتى قعدت في جانب البيت وأنا في جانب وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "ها هنا أخي؟ " قالت أم أيمن: أخوك وقد زوجته ابنتك؟ قال: "نعم"، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت...."

(القسم الثالث من أقسام السنن وهو: الأخبار، النوع الثامن، ذكر وصف تزويج علي بن أبي طالب فاطمة رضي الله عنها وقد فعل، ج: 4، ص: 203، رقم: 3283، ط: دار ابن حزم)

الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں ہے:

"عن أبي بكر بن عثمان، قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة بنت أبي سفيان بن حرب، واسمها رملة، واسم أبيها صخر، زوجها  إياه عثمان ابن عفان، وهي بنت عمته، أمها ابنة أبي العاص- زوجها إياه النجاشي، وجهزها إليه، وأصدقها أربعمائة دينار، وأولم عليها عثمان بن عفان لحما وثريدا، وبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم شرحبيل ابن حسنة فجاء بها."

(كتاب النسآء وكناهن، باب الراء،  رملة بنت أبى سفيان صخر بن حرب بن أمية، ج: 4، ص: 1844، ط: دار الجيل)

کفایت المفتی میں ہے:

’’باجا، اور حاجت سے زیادہ روشنی، آتش بازی، ریا و سمعت کے لیے زیادہ مجمع کی کوشش کرنا یہ سب ناجائز ہے، رشتہ داروں اور مخصوص دوستوں کا مجمع ہو اور سنت کے طریقے پر چلے جائیں‘‘۔

(کتاب الحظر والاباحہ، شادی کے دن بارات کی رسم، ج: 9، ص: 86، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں