بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بارہ (12) ربیع الاول کو عید مبارک کہنے کا حکم


سوال

12 ربیع الاول کو ’’عید مبارک‘‘ کہتے ہیں لوگ، اس کی اسلام میں اجازت ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام میں عید منانے کے لیے اپنے ایام مخصوص  ہیں، جیسے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا  کہ ہم جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح مناتے تھے تو  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

" إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ "

یعنی ”اللہ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر  دو دن تمہارے لیے مقرر کردیے  ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن۔“

(سنن ابی داود، باب صلوۃ العیدین، ج:1، ص:292، ط:المکتبۃ العصریہ بیروت)

لہذا  ان ایام کے علاوہ کسی بھی دن کو عید کے لیے مخصوص کرنا اور اس کو عید کہنا اسلام میں اپنی طرف سے احکامات کا اضافہ کرنے کے مترادف ہے، جس کو حدیث شریف میں "شرالامور" (برے کاموں میں سے ایک کام) قراردیاگیاہے۔

بصورتِ مسئولہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید سمجھنا اور اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں، اور نہ ہی سلفِ صالحین حضراتِ صحابہ ،تابعین،تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے اس دن کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد  دینا ثابت ہے؛ لہٰذا ان امور سے احترازضروری ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:

"عن أنس قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة) أي من مكة بعد الهجرة (ولهم) أي لإهل المدينة (يومان يلعبون  فيهما) وهما: يوم النيروز، ويوم المهرجان، 

(فقال: ما هذان اليومان؟ قالوا: كنا نلعب فيهما) أي في اليومين (في الجاهلية) أي في زمن الجاهلية قبل أيام الإِسلام (فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قدأبدلكم بهما خيرًا  منهما) أي جعل لكم بدلًا عنهما خيرًا منهما في الدنيا والأخرى. وخيرًا ليست أفعل تفضيل إذ لا خيرية في يوميهما (يوم الأضحى ويوم الفطر) وقدم الأضحى فإنه العيد الأكبر، قاله الطيبي، قال المظهر: فيه دليل على أن تعظيم النيروز والمهرجان وغيرهما من أعياد الكفار منهي عنه.

قال ابن حجر: قد وقع في هذه الورطة أهل مصر ونحوهم, لأن كثيرًا من أهلها يوافقون اليهود والنصارى في أعيادهم، يوافقونهم على صور تلك التعظيمات كالتوسع في المأكل والزينة على طبق ما يفعله الكفَّار، ومن ثم أعلن النكير عليهم في ذلك ابن أمير الحاج في "مدخله" وبين تلك الصور، انتهى ما قاله القاري ملخصًا

قلت: وكذلك كثير من مسلمي الهند يوافقون أهل الأوثان من الهنود في أعيادهم ويفعلون ما يفعلون، فإلى الله المشتكى، وإنا لله وإنا إليه راجعون."

(باب صلوۃ العیدین، ج:5، ص:202، ط:مركز النخب العلمية)

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول اللہ ﷺ … وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة."

(مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث: ۱۴۳۸۶، ج:3، ص:310، ط: دار الكتب العلمية)

معارف السنن میں ہے:

"اتفق الخطابي والطرطوشي والقاضي عیاض علی المنع، وقولهم أولیٰ بالاتباع حیث أصبح مثل تلك المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرۃ والفتن السائرۃ الخ."

(معارف السنن ، کتاب الطہارۃ ، باب التشدید فی البول، ج:، ص:265، ط:ايج ايم سعيد)

المدخل لابن الحاج میں ہے:

"وَمِنْ جُمْلَةِ مَا أَحْدَثُوهُ مِنْ الْبِدَعِ مَعَ اعْتِقَادِهِمْ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَكْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَإِظْهَارِ الشَّعَائِرِ مَا يَفْعَلُونَهُ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنْ مَوْلِدٍ وَقَدْ احْتَوَى عَلَى بِدَعٍ وَمُحَرَّمَاتٍ جُمْلَةٍ ....وَهَذِهِ الْمَفَاسِدُ مُرَكَّبَةٌ عَلَى فِعْلِ الْمَوْلِدِ إذَا عَمِلَ بِالسَّمَاعِ فَإِنْ خَلَا مِنْهُ وَعَمِلَ طَعَامًا فَقَطْ وَنَوَى بِهِ الْمَوْلِدَ وَدَعَا إلَيْهِ الْإِخْوَانَ وَسَلِمَ مِنْ كُلِّ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِنَفْسِ نِيَّتِهِ فَقَطْ إذْ أَنَّ ذَلِكَ زِيَادَةٌ فِي الدِّينِ وَلَيْسَ مِنْ عَمَلِ السَّلَفِ الْمَاضِينَ وَاتِّبَاعُ السَّلَفِ أَوْلَى بَلْ أَوْجَبُ مِنْ أَنْ يَزِيدَ نِيَّةً مُخَالِفَةً لِمَا كَانُوا عَلَيْهِ لِأَنَّهُمْ أَشَدُّ النَّاسِ اتِّبَاعًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَعْظِيمًا لَهُ وَلِسُنَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَهُمْ قَدَمُ السَّبْقِ فِي الْمُبَادَرَةِ إلَى ذَلِكَ وَلَمْ يُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ أَنَّهُ نَوَى الْمَوْلِدَ وَنَحْنُ لَهُمْ تَبَعٌ فَيَسَعُنَا مَا وَسِعَهُمْ."

(فَصْلٌ فِي مَوْلِدِ النَّبِيّ والبدع المحدثة فِيهِ، ج:2، ص:2، ط:دارالتراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144203200710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں