بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بار بار وضو ٹوٹنے والے کے لیے نمازِ تراویح کا حکم


سوال

جس بندے کو وضو کا مسئلہ ہو یعنی کئی بار ٹوٹ جاتا ہو نماز میں لیکن ہر دفعہ نہیں،  اور شرعی عذر بننے کی جو شرط ہے وہ مکمل نہ ہو لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کبھی جماعت میں کبھی اکیلے دو تین دفعہ وضو کر کے نماز مکمل کرنی پڑے،  تو نماز تراویح میں ایسے بندے کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ سحری تک اتنے وقت کا انتظار کرے کہ جس میں وہ نماز تراویح مکمل کر سکے یا تھوڑی تھوڑی کر کے مکمل کرے یا چھوڑ بھی سکتا ہے؟اسے چار پانچ مرتبہ یا اس سے زائد وضو کرنا پڑے تو کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل شرعی طور پر معذور تو نہیں ہے لیکن اسے اکثر بار بار وضو ٹوٹنے کی وجہ سے  ہر بار وضو کرنا پڑتاہے، تو ایسی صورت میں سائل کے لیے  بار بار وضو ٹوٹنے کی وجہ سے  تراویح کی نماز  چھوڑنا جائز نہیں ہے، اب  سائل کو چاہیے کہ   تسلی اور اطمینان سے استنجا کر وضو  بناکر جتنی  رکعت نمازِ  تراویح پڑھی جاسکتی ہیں پڑھ لے، پھر اگر اس دوران وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو بناکر تراویح کی نماز مکمل کرلی جائے، آخری وقت تک انتظار کرنا  یا ایک  وضو کے ساتھ مکمل تراویح پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

''(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم''.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية."

(باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:45، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں