بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بار بار احتلام ہونے کی صورت میں تیمم کرنے کا حکم


سوال

بار بار احتلام ہونے کی صورت میں تیمم سے کام ہو سکتا ہے ؟

جواب

بار بار احتلام ہونے کے صورت میں تیمم کرنے کی اجازت نہیں ہے بل کہ غسل کرنا لازم ہے کیوں کہ تیمم کرنا اس شخص  کے حق میں مشروع ہے  جس کو  پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو، اور پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

1)پانی میسر  نہ ہو، مثلًا شہر سے باہر ہو اور  آس پاس ایک میل تک پانی دست یاب نہیں ہو، یا کنواں تو ہے مگر کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی صورت نہیں ہے،  یا پانی پر کوئی درندہ بیٹھا ہے یا پانی پر دشمن کا قبضہ ہے،  اس کے خوف کی وجہ سے پانی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، تو ان تمام صورتوں میں  اس شخص کو گویا پانی میسر ہی نہیں ہے، ایسا شخص وضو اور غسل کے لیے تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے۔

2)پانی تو موجود ہے لیکن وہ شخص بیمار ہے، اور وضو یا غسل سے جان کی ہلاکت یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا یا بیماری میں اضافہ ہوجانے کا  یا بیماری کے طول پکڑجانے کا اندیشہ ہے  یا خود وضو یا غسل کرنے سے معذور ہے اور کوئی دوسرا آدمی وضو یا غسل کرانے والا موجود نہیں ہے تو ایسا آدمی تیمم کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيماً في المصر (ميلاً) أربعة آلاف ذراع،  (أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك ... (أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه... (قوله: من عجز) العجز على نوعين: عجز من حيث الصورة والمعنى، وعجز من حيث المعنى فقط، فأشار إلى الأول بقوله: لبعده، وإلى الثاني بقوله: أو لمرض، أفاده في البحر ... (قوله: يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لايجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافاً لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح: وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اهـ. واستشكله الرملي بما صححه في الفتح وغيره في مسألة المسح على الخف من أنه لو خاف سقوط رجله من البرد بعد مضي مدته يجوز له التيمم. قال: وليس هذا إلا تيمم المحدث لخوفه على عضوه، فيتجه ما في الأسرار من اختيار قول بعض المشايخ. أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى -، نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادةً أنه لو تحقق جاز فيه أيضاً اتفاقاً، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون (قوله: ولو في المصر) أي خلافاً لهما (قوله: ولا ما يدفئه) أي من ثوب يلبسه أو مكان يأويه. قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لايباح له التيمم إجماعاً". 

(كتاب الطهارة، باب التيمم، ج:1، ص:232،234، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وأصل مشروعية التيمم إنما هي عند فقد الماء بالنص وما يخاف فوته لا إلى بدل فيه معنى فقد الماء حكما أما ما سواه فلا فقد فيه أصلا فلا يجوز فعله قال في المنية ولو ‌تيمم لمس المصحف أو لدخول المسجد عند وجود الماء والقدرة على استعماله فذلك التيمم ليس بشيء قال البرهان إبراهيم الحلبي في شرحها: لأن التيمم إنما يجوز ويعتبر في الشرع عند عدم الماء حقيقة أو حكما ولم يوجد واحد منهما فلا يجوز."

(كتاب الطهارة، باب التيمم، فصل نواقض التيمم ج:1، ص:159،ط:دار الكتاب الإسلامي)

البناية شرح الهدايةمیں ہے:

"إن التيمم في المصر لا يجوز إلا في ثلاث:أحدها: إذا خاف من فوت صلاة الجنازة إن توضأ.والثانية: عند خوف فوت صلاة العيد.والثالثة: عند خوف الجنب من البرد بسبب الاغتسال.وقال الإمام التمرتاشي: من عدم الماء في الحضر لا يجوز له التيمم لأنه نادر، وذكر في " الأسرار " جواز التيمم لعادم الماء في الأمصار."

(كتاب الطهارة، باب التيمم،فصل شرائط التيمم، ج:1، ص:511، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں