بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بار بار بال (Ball) گرنے کی وجہ سے بچوں کی بال کو ضبط کر کے واپس نہ دینا


سوال

بال (Ball) اگر گھر میں بار بار آئے اور بچوں سے یہ کہا جائے کہ بال واپس نہیں دیں گے تو کیا اس صورت میں بال واپس نہ دی جائے تو گناہ ہوگا؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کے گھر میں بچوں کی بال (ball) بار بار آئے تو سائلہ کے لیے جائز نہیں کہ بچوں کی بال کو واپس نہ کرے، تاہم اگر  بار بار گھر میں بال گرنے کی وجہ سے سائلہ کو تکلیف ہورہی  ہے تو دیگر جائز طریقے سے اس تکلیف کو دور کرسکتی ہے ،مثلاً بچوں کے سرپرست حضرات سے رجوع کرکے بچوں کو شرارت سے روکنے کی درخواست  وغیرہ کر کے اس عمل کو روکے۔ 

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ."

" (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا؛ لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس، فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان، (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال، كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ، وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

(باب التعزیر : ج 4، ص 61، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں