بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بار بار آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کا حکم


سوال

مہمان نوازی کے بہت سے حقوق اور آداب ہیں،  لیکن ہمارے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں ہر ایک دن کے بعد ہمارے ہاں مہمان بن کر پہنچ جاتے ہیں ،بوجۂ تنگدستی کے ہمیں ہر حال میں ان کی مہمان نوازی کے لیے چائے پانی کرنا پڑتا ہے ، تو ایسے مہمانوں کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مہمانوں کےلیےآپ کےہاں باربارآنااورآپ کومہمان نوازی کی تکلیف دیناگناہ ہے،لیکن چوں کہ مہمان نوازی ایک مستحب عمل ہےاگرآپ کو اس کی وجہ سےمشقت ہے تو خاص اہتمام نہ کرنے کی وجہ سےآپ گناہ گارنہیں ہوں گے۔

شرح مشکل الآثارمیں ہے:

"حدثنا المقداد بن عمرو قال: جئت أنا وصاحب لي قد كادت تذهب أسماعنا وأبصارنا من الجوع فجعلنا نتعرض للناس فلم يضفنا أحد ، فأتينا النبي صلى الله عليه وسلم ، فقلنا: يا رسول الله ، بنا جوع شديد فتعرضنا للناس فلم يضفنا أحد ، فأتيناك فذهب بنا إلى منزله وعنده أربعة أعنز ، فقال: " يا مقداد احلبهن وجزئ اللبن لكل اثنين جزءا "

فكان هذا الحديث يدل على أن ‌الضيافة ‌ليست ‌بواجبة ; لأنها لو كانت واجبة لأنكر رسول الله صلى الله عليه وسلم على من تخلف عنها ."

(‌‌باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ج:7، ص:245، ط:مؤسسة الرسالة)

التمہید،ابن عبدالبرمیں ہے:

"وقال الطَّحاويُّ: الضِّيافة من كَرامةِ الضيفِ على حديثِ أبي شُرَيْح الكَعبيِّ، وفيه دليلٌ على انتفاءِ وجوبِها. قال: وجائزٌ أنْ تكونَ كانت واجبةً عند الحاجة إليها، لقلةِ عددِ أهل الإسلام في ذلك الوقت، وتَباعُدِ أوطانهم، وأمّا اليوم فقد عمَّ الإسلام، وتقارَب أهلُه في الجوار. قال: وفي حديث أبي شُريح: "جائزتُه يومٌ وليلةٌ". قال: والجائزةُ مِنْحةٌ، والمنحةُ إنما تكونُ عن اختيار، لا عن وجوب، وباللَّه التوفيق.

ومما يدلُّ على أن ‌الضِّيافةَ ‌ليست ‌بواجبةٍ فرضًا، قولُ رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم: "مَن كان يُؤمنُ باللَّه واليوم الآخرِ فليُكرِمْ جارَه، ومَن كان يُؤمنُ باللَّه واليوم الآخرِ فليُكرِمْ ضيفَه". وقد أجمَعوا أنَّ إكرامَ الجارِ ليس بفرض، فكذلك الضيف.

وفي هذا الحديث وما كان مثلَه دليلٌ على أن الضِّيافةَ من مكارم الأخلاق في الحاضرةِ والباديةِ. ويجوزُ أن يَحتَجَّ بهذا مَن سوَّى بين الضِّيافةِ في الباديةِ والحاضرة، إلّا أنَّ أكثرَ الآثارِ في تأكيدِها إنَّما وردَت في قوم مسافرين مُنِعوها."

(باب السين، ج:13، ص:179، ط:مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603100803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں