بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کے گھر جاؤ سے طلاق کاحکم


سوال

اگر ایک شخص نےبیوی کو غصے کی حالت میں یہ کہا کہ باپ  کے گھر جاؤ،  کچھ دن بعد میں خود آپ کو واپس اپنے ساتھ لے آتاہوں اور طلاق کی نیت  بالکل نہ ہو،  بلکہ  دھمکانا  ڈرانا  مقصد ہو تو کیا طلاق تو واقع نہیں جاتی ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   مذکورہ   جملے "باپ  کے گھر جاؤ کچھ دن بعد میں خود آپ کو واپس اپنے ساتھ لے آتاہوں" سے اگر واقعۃً طلاق دینے کی نیت نہیں کی  تھی تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان".

(کتاب الطلاق،3/ 326،دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں