بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ پر بچوں کا خرچہ کس تناسب سے آئے گا ؟


سوال

میں نے  اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ،سوال میرا بچوں کے اخراجات اور  نان نفقہ کے بارے میں ہے ،میرے تین بچے ہیں ،دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ،ایک بیٹی 13سال کی  دوسری 9 سا ل کی اور بیٹا 4 سال کا ہے ،بچے فی الحال ماں کے پاس رہتے ہیں ،میری آمدنی 35 ہزار روپے ہے ،سوال یہ ہے کہ بچوں کے کتنے اخراجات مجھ پر لازم ہوں گے ؟

اور اگر میرے سسرال والے میری طاقت اور استطاعت سے بڑھ کر مجھ سے اخراجات کا مطالبہ کریں ،تو کیا ان کا مطالبہ پورا کرنا مجھ لازم ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی ہونے کی صورت میں  بچے کی سات سال کی عمر ہونے تک اس کی   پرورش کا حق بچے کی سگی ماں کو حاصل ہے،  اور  اگر بچی ہو تو نو سال تک یہ حق ماں کے پاس رہتا ہے ،اس کے بعد بچہ /بچی کو والد اپنی  تحویل  میں لے سکتا ہے ،اور زیادہ حق دار بھی باپ ہی ہوتا ہے ،البتہ باپ اگر اپنی خوشی سے بچوں کو مذکورہ عرصہ کے بعد والدہ کے ہاں چھوڑنے پر راضی ہو تو یہ بھی جائز ہے ،بشرطیکہ بچوں کی تربیت متاثر نہ ہو۔البتہ دونوں صورتوں میں بچوں  کے اخراجات اٹھانا(بچہ ہے تو بلوغت تک ،اور بچی ہے، تو شادی تک) والد کے ذمہ لازم  و  ضروری ہیں ،نیز بچوں کی پرورش میں ان کی  جسمانی  نشو  و نما کے ساتھ ساتھ    ذہنی ، اخلاقی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جائے، نیز   بچوں کی دینی اصلاح اور تعلیم کا   بھی خصوصی اہتمام کریں۔

1) لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل  پر اپنی  استطاعت و  حیثیت  اور بچوں کی حاجت کے مطابق  اپنے بچوں کا خرچہ مذکورہ تفصیل کے مطابق لازم ہو گا ،اس میں بچوں کے نان نفقہ کے ساتھ  تعلیم وتربیت  علاج معالجہ  کا خرچہ بھی (عرف وحیثیت کے مطابق )شامل ہے ۔نیز اس میں کوئی خاص مقدار متعین کرنا مشکل ہے۔

2) سائل کی استطاعت سے زیادہ  اخراجات کا مطالبہ اگر سسرال والے کریں ،تو سائل پر ان  زائد اخراجات کا پورا کرنا لازم وضروری نہیں ،مناسب ہے کہ اس کے لیے فریقین کے منتخب کردہ ثالث کی مدد لی جائے ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"وإذا أراد الفرض، والزوج موسر يأكل الخبز ‌الحواري واللحم المشوي، والمرأة معسرة، أو على العكس اختلفوا فيه والصحيح: أنه يعتبر حالهما كذلك في الفتاوى الغياثية وعليه الفتوى حتى كان لها نفقة اليسار إن كانا موسرين، ونفقة العسار إن كانا معسرين، وإن كانت موسرة، وهو معسر لها فوق ما يفرض لو كانت معسرة، فيقال له: أطعمها خبز البر وباجة أو باجتين، وإن كان الزوج موسرا مفرط اليسار نحو أن يأكل الحلواء، واللحم المشوي والباجات وهي فقيرة كانت تأكل في بيتها خبز الشعير لا يجب عليه أن يطعمها ما يأكل بنفسه، ولا ما كانت تأكل في بيتها، ولكن يطعمها خبز البر وباجة، أو باجتين."

(كتاب الطلاق ،[الباب السابع عشر في النفقات وفيه ستة فصول ،الفصل الأول في نفقة الزوجة ،ج:1،ص:544 ،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر : واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسراً والآخر معسراً، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسراً وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين، وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة."

(کتاب الطلاق،باب النفقة،574/3،ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله".

(قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن".

(کتا ب الطلاق، باب النفقة، مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه، ج:3، 612، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌نفقة ‌الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة".

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الاولاد، ج:1، ص:560، ط:رشيدية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144507102011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں