بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کی میراث میں مرحومہ بیٹی کی اولاد کا حصہ


سوال

باپ کی جائیداد میں مرحوم بیٹی کی اولاد کا کتنا حصہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹی کا انتقال اپنے والد کی حیات میں ہی ہو گیا ہو تو  اُن کے ترکہ میں اُن کے نواسوں کا کوئی حق نہ ہو گا اور اگر بیٹی کا انتقال والد کے انتقال کے بعد ہوا ہو تو اس صورت میں والد کے ترکہ میں بیٹی کا بھی حق ہے، لہٰذا جتنا حق بیٹی کا ہے  وہ حق اُس بیٹی کے شرعی ورثاء  میں تقسیم ہو گا۔(ورثاء کی تفصیل بتاکر تقسیم کا طریقہ کار معلوم کرسکتے ہیں )

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."

(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)

''البحر الرائق  '' میں ہے:

''وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث، فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث."

 ( کتاب الفرائض،ج:9، ص:346 ، ط:رشیدیہ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں