بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ اگر سودی کام کرتا ہو تو کیا بیٹا کے لیے اس کمائی سے کھانا حلال ہے


سوال

میرے والد  سودی  ہیں، اور  وہ سمجھتے بھی نہیں تو  میں اس گھر کا کھانا کھا سکتا ہوں کیا؟  اور اس گھر میں رہ سکتا ہوں؟ کیا مجھ پر اس گھر کا کھانا حلال ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل  اگر بالغ ہے تو  اُسے چاہیے کہ وہ اپنے لئے حلال روزی  کا انتظام خود کرے  ،بلوغت کے بعد بیٹے کے نفقہ کی ذمہ داری شرعًا باپ پر لازم نہیں ہوتی ، بیٹے کا نفقہ بیٹے پر ہی لازم  ہوتاہے ،جب کہ والد کی حرام کمائی نہ والد کے لیے حلال ہے اور نہ بیٹے کے لیے ،یہی حکم گھر کا بھی ہے کہ اگر گھر حرام کمائی سے بنایا گیا ہے تو سائل اس میں نہ رہے، اپنے لیے حلال  کمائی  سے کہیں اور  رہائش کا انتظام کرے، لیکن اگر فی الحال رقم کا  بندوبست نہ ہو  تو والد کے گھر کا کھانا کھا سکتے ہیں او ر  رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔

السنن الکبری میں ہے: 

" عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها". 

(کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، 5/ 548، ط: دار الكتب العلمية)

         فتاوی شامی  میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". 

(5 /99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

(قوله: اکتسب حراماً الخ)توضیح المسألة ما في التتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالاً من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه، إما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولاً ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها، أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غیرها، أو اشتری مطلقاً ودفع تلك الدراهم، أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم، قال أبونصر: یطیب له ولایجب علیه أن یتصدق إلا في الوجه الأول … وقال الکرخي في الوجه الأول والثاني لایطیب، وفي الثلاث الأخیرة یطیب، وقال أبوبکر: لایطیب في الکل.  لکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعاً للحرج عن الناس".

(مطلب إذا اکتسب حراماً ثم اشتری فهو علی خمسة أوجه، 4 / 244،ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں