بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک یا انشورنس کمپنی کا آڈٹ کرنے کا اور وہاں سے ملنے والی رقم اور کھانے کا حکم


سوال

1۔میں ایک ایکسٹرنل (خارجی) آڈٹ فرم میں ٹریننگ کر رہا ہوں، ہماری فرم کے کلائنٹ ہوتےہیں، جن  کے ہاں جا کر ہم آڈٹ کرتے ہیں، ہمارے ذمے کام چیک کرنا ہوتا ہے، نہ کہ کام کرنا، تو کیا ہم کسی بینک یا انشورنس کمپنی کا آڈٹ کر سکتے ہیں؟

2۔اور ان کی طرف سے ہمیں چائے، پانی، اسٹیشنری وغیرہ ملتی ہے تو کیا وہ استعمال کرنا جائز ہے؟ اور ان کی طرف سے ہمیں روز کا الاؤنس ملتا ہے ، اور اگر دیر تک بیٹھنا ہو جو کہ ہمارے اس کام میں معمول کی بات ہے  تو ہمیں رات کا کھانا یا رمضان میں افطاری ملتی ہے تو کیا یہ سب ہمارے لیے شریعت کی رُو سے حلال ہے یا حرام؟ کیا ہم وہاں کا پانی یا واش روم استعمال کر سکتے ہیں اور کیا وہاں وضو کر سکتے ہیں؟ اور کیا وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ تمام بینکوں میں سود کا کاروبار ہوتا ہے، اور انشورنس کے مروجہ اداروں کے معاملات میں بھی سود کے ساتھ جوئے کا عنصر بھی پاتا ہے، اور جس طرح سود کھانا، کھلانا، لکھنا اور  اس میں گواہ بننا جائز نہیں،  اسی طرح سودی کام میں کسی طرح تعاون کرنا بھی شرعاً جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل اگر چہ بینک اور انشورنس کے اداروں کو صرف چیک کرتا ہے  لیکن چوں کہ آڈٹ کرنے  میں ان اداروں کے سودی حسابات اور لین دین میں معاونت ہوتی ہے   اس لیے یہ جائز نہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: 

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا و مؤكله، ج:3،ص:1219، رقم:1598، دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب برابرہیں۔

2۔ جو  اسٹیشنری، رقم یا کھانا بینک یا انشورنس ادارے سائل کو دیتے ہیں، یہ ان کی طرف سے تبرع ہے اور چوں کہ ان اداروں کی کمائی حرام ہے اور یہ ہدیہ اور تبرع بھی حرام پیسوں سے ہوتا ہے؛ لہذا سائل کے لیے  اس کا لینا جائز نہیں ہے، نیز وہاں کے واش روم اور پانی کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے،کیوں کہ وہ پانی بھی حرام آمدنی سے خریدا گیا ہے، اور بغیر کسی مجبوری کے  مذکورہ اداروں میں نماز پڑھنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے،  اگر نماز پڑھ لی تو مکروہِ تحریمی ہوگی لیکن ادا ہوجائے گی۔

الفتاوی الہندیہ میں ہے:

"آكل ‌الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا و الضيافات، ج:5، ص:343، ط:دارالفكر)

و فیہ ایضاً:

"الصلاة في أرض ‌مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب. كذا في مختار الفتاوى ‌الصلاة جائزة في جميع ذلك لاستجماع شرائطها وأركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. كذا في الهداية."

(كتاب الصلاة، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہا، الفصل الثانی فیما یکرہ فی الصلاۃ و ما لا یکرہ، ج:1، ص:109، ط:دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101835

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں