بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے قرض لینے کا حکم


سوال

کیا بینک سے پرسنل لون یا ہاؤسنگ لون لینا جائز ہے؟

جواب

بینک  مختلف کاموں کے لیے جو قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے، یعنی اس قرض کے ذریعے نفع حاصل کرتا ہے،  جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے،کسی بھی طرح کا سودی معاملہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلانِ جنگ ہے، لہٰذا بینک سے ذاتی خرچ کے لیے قرض لینا ہو یا مکان بنانے یا خریدنے کے لیے قرض لینا ہو، دونوں ناجائز اور حرام ہیں۔ نیز اگر کوئی شخص مکان یا کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں ضرورت مند ہو تو اسے چاہیے کہ کسی سے بلاسود قرض حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور اگر بغیر سود کے قرض میسر نہ ہوتو اپنی ضروریات میں  کفایت شعاری سے کام لے،اورپھر جب پیسے جمع ہو جائیں تو اُن پیسوں سے اپنی ضروریات کا بندوبست کرلے۔اس دوران جو تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں راضی ہوں اور جس عمل کے نتیجے میں آخرت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دنیا کے مصائب ہیچ معلوم ہوں گے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ . فَإِن لَّمْ تفعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ . وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ .(سورة البقرة: ٢٧٨-٢٨٠)

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگےتو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی  ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ 

(بیان القرآن، ج:1، ص:200، ط: دارالاشاعت )

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌جابر قال:  لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(كتاب البيوع،  ‌‌باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:٣، ص:١٢١٩، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے سود کھانے والے پر، اس کے کھلانے والے پر، اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر، اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں