فاننس سے گاڑی خرید نا کیسا ہے، جب کہ مکمل اور وقت پر قسط ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو؟
واضح رہے کہ کسی بھی بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنا اور اس کی ماہانہ اقساط جمع کرانا جائز نہیں ، کیوں کہ روایتی بینک قسط کی تاخیر پر جرمانہ وصول کرتے ہیں اور مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جب کہ مروجہ غیر سودی بینک جرمانے کے عنوان سے اضافی رقم وصول کرنے کے بجائے جبری صدقے کا التزام کرواتے ہیں، اس شرط کی وجہ سے بھی عقد ناجائز ہوجاتاہے، نیز بینک سے قسطوں پر گاڑی لینے میں ایک عقد میں دوسرا عقد داخل کرنا لازم آتاہے، جو از روئے حدیث ممنوع ہے؛ اس لیے بینک سے قسطوں پر خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔لہذا مکمل قسط جمع کروانے کی مکمل طاقت بھی ہو تب بھی بینک سے گاڑی خریدنا ناجائز ہے۔
اسی طرح بینک کے علاوہ دیگر اداروں سے قسطوں پر گاڑی یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے (اگرچہ وہ قیمت نقدی معاملہ کی قیمت سے زیادہ ہو) اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، اور ادھار کی مدت طے کرلی جائے، اور قسط کی مدت بھی متعین کردی جائے اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ/ جرمانہ وصول نہ کیاجائے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة. رواه مالك و الترمذي و ابوداؤد و النسائي."
(کتاب البیوع ،باب الربا،867/2،المكتب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: لا باخذ مال في المذهب)... إذ لا يجوز لاحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال ٦١/٤ ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101670
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن