بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بينک سے اسٹیٹمنٹ بنوانے کی جائز اور ناجائز صورتیں


سوال

بینک سے یا کسی ویزہ ایجنٹ سے اکاؤنٹ کی اسٹیٹمنٹ بنوانا اور اس کے بدلے کچھ رقم دینا کیا یہ جائز ہے ؟سوال کی تفصیل یہ ہے کہ کچھ لوگ بیرون ملک سٹڈی ویزہ یا اور اس طرح کوئی بھی ویزہ کے حصول کے لیے بینک کی اسٹیٹمنٹ بنواتے ہیں یا کسی ایجنٹ سے یا پھر کسی بینک سے اور بینک یا وہ ایجنٹ کچھ مدت کے لیے پیسے سٹوڈنٹ کے اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں اور اس کے عوض کچھ رقم لیتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اگر یہ جائز نہیں تو جواز کی صورت کیا ہے ؟

جواب

سٹڈی ویزہ یا کوئی بھی ویزہ حاصل کرنے کے لیے بینک سے اسٹیٹمنٹ بنوانے کی جائز صورت یہ ہے کہ کسی سے بلا سود قرض لے کررقم اپنے اکاؤنٹ میں رکھوا لی جائے ، اور جتنی رقم اکاؤنٹ میں  ڈالی ہے اسٹیٹمنٹ میں اس سے زائد رقم  ظاہر نہ کروائی جائے،اور حقیقی اثاثوں اور لین دین پر مشتمل اسٹیٹمنٹ بنوالی جائے تو یہ صورت جائز ہے۔

لیکن بینک یا ویزہ ایجنٹ سے اس طرح اسٹیٹمنٹ بنوانا کہ حقیقی طور پر آدمی جس رقم کا مالک نہیں اسے اسٹیٹمنٹ میں شو  کیاجائے،یہ جعلی اسٹیٹمنٹ ہےجوکہ دھوکہ دہی اور جھوٹ پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے ۔

 اور اگر بینک اسٹیٹمنٹ بنوانے  والے کے اکاؤنٹ میں  رقم بطور ِ قرض    رکھے ،اور اس کا معاوضہ  وصول کرےتویہ صورت بھی ناجائز ہے،اس لیے کہ  قرض پر نفع  لینا سودکے حکم میں ہے،اور سود کا لین دین کرنا ناجائز اور حرام ہے   ۔

البتہ  یہ صورت ہو سکتی ہے کہ ویزہ  ایجنٹ کو ویزہ کی کاروائی  کرکے ویزہ نکالنے کے لیے وکیل بنا دےاور اس پر اس کی اجرت مقرر کردے، جب کام ہو جائے تو وہ مقررہ اجرت دے دے یا اگر اعتماد  ہے تو پہلے سے دے دے تو یہ جائز  ہو گا۔

مصنف ابن ابی شیبہ ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص عن أشعث عن الحكم عن إبراهيم قال: ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة فهو ربا."

(كتاب البيوع ،فصل في من كره كل قرض جر نفعا،ج:11، ص :425،ط : دار الكنوز)

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أعطي عطاء فوجد فليجز به ومن لم يجد فليثن فإن من أثنى فقد شكر ومن كتم فقد كفر ‌ومن ‌تحلى ‌بما ‌لم ‌يعط كان كلابس ثوبي زو. رواه الترمذي وأبو داود."

(كتاب البيوع باب العطايا،الفصل الثاني ج:2 ،ص:910 ،المكتب الإسلامي)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره كل قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد".

(الفصل التاسع والعشرون في القرض وما يكره من ذلك، وما لا يكره، ج:5، ص:394، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں