میں روس کا رہنے والا ہوں، وہاں پر بینک سے نقد پیسے نکالنا بہت مشکل ہے، ایک تو ٹیکس بہت زیادہ ہے اور دوسرا پوچھ گچھ بہت ہے، اس لئے وہاں ایک کاروبار رائج ہے ،کہ آپ بینک کے علاوہ کسی اور سے نقد رقم لیتے ہیں، وہ اس میں کچھ رقم اضافی لیتا ہے، مثلا وہ کہتے ہیں فلاں اکاونٹ میں پیسے ٹرانسفر کر دے اور 3 یا 4 دن کے بعد نقد دیتے ہیں، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اور اس طرح کا کاروبار کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر یہ درست نہیں تو جواز کی صورت بھی بتا دیں۔ کیوں کہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ نوٹ، بنک سے آن لائن ٹرانسفر کرنے پر نہ پوچھ گچھ ہے اور نہ اس پر ٹیکس ہے۔
واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنے اکاؤنٹ سے دوسرے شخص کے اکاؤنٹ میں رقم بھیجتا ہے، تاکہ دوسرا شخص اپنے اکاؤنٹ سےاس کی یہ رقم نکلواکر اس کو نقد کی شکل میں دےـ(یعنی کیش کراکر دے)، اور یہ رقم بھیجنے والا ٹیکس اور پوچھ گچھ کی تمام ذمہ داریوں اور مشکلات سے بچ جاۓ، تو ایسی صورت میں دوسرا شخص ارسال کی گئی مذکورہ رقم اپنے بینک اکاؤنٹ سے نکلواتا ہے، اور اس رقم کے ٹیکس اور پوچھ گچھ کی بھی تمام ذمہ داری بھی اپنے سر لیتا ہے، پھر اس شخص کو وہ شخص رقم نقد کی شکل میں(کیش کراکر)دیتا ہے ، تو اس کام میں اجرت لینے کی دو صورتیں ہیں:
الف: رقم نقد دینے والا (کیش کراکر) اسی نقد رقم سے اجرت لے فیصدی اعتبار سے یعنی رقم کیش دیتے وقت اسی رقم سے اپنی اجرت منہا کرے تو یہ صورت ناجائز ہے۔
ب: رقم نقد دینے والا شخص اپنی اجرت الگ سے متعین کرکے وہ رقم بطور اجرت الگ سے لےاور گاہک اس کی مکمل رقم کیش کرواکے لوٹادے، اور اس نقد رقم سے اپنی اجرت نہ لے، تو الگ سے اجرت متعین کرکے وصول کرنے کی صورت میں اجرت لینا اور دینا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل."
(كتاب النكاح،باب المہر،156/3،سعید)
مجموعہ قواعد الفقہ میں ہے:
"استحقاق الأجرة بعمل لا بمجرد قول."
(رقم القاعدة: 25، ص:57، ط:مير محمد كتب خانہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."
(كتاب الإجارة،باب فسخ الإجارة،مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا،95/6، ط: سعيد)
مجمع الضمانات میں ہے:
"الأجير على نوعين: أجير مشترك ... فالأجير المشترك هو الذي يستحق الأجرة بالعمل لا بتسليم النفس كالقصار والصباغ."
(باب مسائل الإجارة،القسم الثاني في الأجير ،المقدمة في الكلام على الأجير المشترك والأجير الخاص،ص:27، ط:دار الكتاب الإسلامي)
مجمع الأنهر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے:
"(ولا يستحق) الأجير المشترك (الأجر حتى يعمل كالصباغ، والقصار) ونحوهما؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بين المعوضين فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر وهو العمل لا يسلم للأجير العوض وهو الأجر."
(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،فصل أحكام الأجير وأنواعه، 2/ 391،ط:المطبعة العامرة - تركيا/1328ه)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ،63/6 ط: سعید)
العنایہ شرح الهدایہ - بہامش فتح القدیر میں ہے:
"وهو ما إذا قال احمل هذا الكر إلى بغداد بنصفه فإنه لا يكون شريكا ولكن تفسد الإجارة لكونها في معنى قفيز الطحان، ويجب أجر المثل لا يجاوز به قيمة نصف الكر."
(كتاب الإجارات،[باب الإجارة الفاسدة،110/9،ط: دار الفكر، لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"الإجارة الفاسدة أنه لو دفع لآخر غزلا لينسجه له بنصفه أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه فسدت لأنه استأجره بجزء من عمله، وحيث فسدت الإجارة يجب أجر المثل من الدراهم كما صرحوا به أيضا، وهذا يقتضي أن يجب له أجر مثله دراهم، ولا يستحق شيئا من اللحم فلم يصر شريكا فيه."
(باب الهدي، 616/2، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102126
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن