بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے سودی قرضہ لینے کے توبہ تائب ہونے کے بعد امامت کا حکم


سوال

ایک مسجد کے امام نے بینک سے کاروبارکےلیے یاذاتی استعمال کےلیے لون لیاہے ، اس کی اقتدامیں نمازپڑھنا درست ہے کہ نہیں؟  اور یہ کہتاہے کہ میں توبہ کرتاہوں آئندہ لون نہیں لوں گا، آیااس کےاس توبہ کااعتبار ہوگا؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

بینک سے بغیر شدید مجبوری کے سودی قرضہ لینے والے کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، تاہم جب امام صدقِ دل سے آئندہ سودی قرضہ نہ لینے کے عزمِ صمیم کے ساتھ توبہ تائب ہے، تو عنداللہ امید ہے کہ توبہ قبول ہو، اور پھر اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك.

وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لايهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعًا."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط:ایچ ایم سعید)

تفسير روح المعاني میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، و ركنها الأعظم الندم." 

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144409101049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں