اگر کوئی بینک قسطوں پر آپ کو گاڑی دے اور تاخیر سے قسط ادا کرنے پر جرمانہ بھی نہ ہو تو گاڑی لینا کیسا اور وہ گاڑی اگر ساٹھ لاکھ کی ہے تو بینک آپ کو تیس لاکھ اکٹھے ادا کرنے کے بعد گاڑی دے دیتا ہے۔اور بقیہ تیس لاکھ قسطوں پر ادا کرنے پر گاڑی آپ کے نام بھی کر دیتا ہے۔ اب اس میں کون کون سی شرائط شریعت کے خلاف ہیں؟
قسطوں پر گاڑی یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، اور ادھار کی مدت طے کرلی جائے، اور قسط کی مدت بھی متعین کردی جائے اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ/ جرمانہ وصول نہ کیاجائے۔ مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو یہ بیع ناجائز اور سود کے حکم میں ہوگی۔ بینک اس معاملے کی شرعی شرائط کی پاس داری نہیں کرتے، مثلًا: روایتی بینک تو قسط کی تاخیر پر جرمانہ وصول کرتے ہیں، جب کہ مروجہ غیر سودی بینک جرمانے کے عنوان سے اضافی رقم وصول کرنے کے بجائے جبری صدقے کا التزام کرواتے ہیں، اس شرط کی وجہ سے بھی عقد ناجائز ہوجاتاہے، نیز بینک سے قسطوں پر گاڑی لینے میں ایک عقد میں دوسرا عقد داخل کرنا لازم آتاہے، جو از روئے حدیث ممنوع ہے؛ اس لیے بینک سے قسطوں پر خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن