بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے قرضہ لینا


سوال

 ہم نے کاروبار کے لیے قرضہ لینا ہے زمین کے کاغذات پر ، کون سے بنک سے لیں۔ بتا دیجیے!

جواب

واضح  رہے کہ  روایتی  بینکوں سے جو بھی  قرضہ لیا جاتا ہے  اس پر  اضافی رقم دینا پڑتی ہے،اور قرض لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے  وہ سود ہے، جس  کا لینا ، دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔  قرآنِ  کریم اور احادیثِ  مبارکہ  میں  سودی معاملات  کرنے  والوں  کے  لیے  سخت وعیدیں وارد  ہوئی  ہیں ؛ اس لیے اس سے احتراز  لازم اور ضروری ہے۔ انجام کارسودی قرضہ کاروبار میں ترقی کے بجائے تنزلی کا ذریعہ بنتاہے؛ لہذااپنی وسعت کے مطابق کام کرنا  چاہیے، سودی قرضہ لے کر کاروبار بڑھانا   ہر گز  جائز  نہیں۔

نیز  مروجہ اسلامی بینکوں سے بھی قرضہ لینا جائز  نہیں، کیوں کہ ہماری تحقیق کے مطابق مروجہ اسلامی بینکوں میں سے کوئی  بھی مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے،  بلکہ کچھ نہ کچھ سقم ہر بینک کے معاملات میں  پایا جاتا ہے؛  اس لیے کسی بینک سے بھی قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے گو وہ کسی دوسرے نام سے کیا جاتا ہو؛ لہٰذا کسی بھی بینک  سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے، اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں۔

"وَفِي الْأَشْبَاهِ: " كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ ؛ فَكُرِهَ لِلْمُرْتَهِنِ سُكْنَى الْمَرْهُونَةِ بِإِذْنِ الرَّاهِنِ".

وفي الرد:"(قَوْلُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا، كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ".(166/5 )

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)

"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا".

( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة» (7/ 326) برقم (1440)،ط. ار العاصمة ، دار الغيث – السعودية، الطبعة: الأولى، 1419)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں