بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے معاملات کرنے والے شخص کے پاس ملازمت کرنا


سوال

 میں ایک آفس میں کام کرتا ہوں جس کے مالک بینک سے گاڑیاں قسطوں پر نکلواتے ہیں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بینک سے قسطوں پر گاڑی نکلوانا سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ اور میں نے جب ان سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ بینک کا مارجن اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے اور وہ رقم جس میں کمی اور زیادتی ہو وہ سود کے زمرے میں نہیں آتی۔

آپ میری اصلاح کیجیے کہ میرا یہاں پر کام کرنا مناسب ہے؟ اس بارے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ مزید وہ بینک سے ہوم فائنانس لینے کے خواہش مند ہیں۔

برائے کرم آپ مجھے تفصیلی راہ نمائی فرمائیے تاکہ کہ میں کسی بھی گناہ کے شر سے محفوظ رہوں!

جواب

کسی بھی بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ: 

1۔۔  بینک  سے خریدنے والے اور بنک کے درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع (خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو بینک کی جانب سے مقرر ہ جرمانہ خریدار ادا کرنے کا پابند ہو گا، جو کہ شرعاً جائز نہیں، جیساکہ "فتاوی شامی" میں ہے:

"(قوله: لا باخذ مال في المذهب)... إذ لايجوز لاحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".

(باب التعزير:مطلب في التعزير بأخذ المال ٦١/٤ ط:سعيد)

2۔۔   بینک سے قسطوں پر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں، ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة".

(رواه مالك و الترمذي و ابوداؤد و النسائي)

"و عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنة.»".

پس مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی بنا پر  بینک سے  لیزنگ پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح بینک مکان کے لیے جو قرض دیتے ہیں اس پر سود وصول کرتے ہیں، اور جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے، اس لیے بینک سے مکان کے لیے قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔

باقی جہاں تک مذکورہ معاملات کرنے والے شخص کے پاس  آپ کی ملازمت کا تعلق ہے تو اگر اس آفس میں کام جائز ہوتا ہو اور  آپ کا  کام  بھی جائز ہو تو اس  آپ کے لیے یہاں کام کرنا جائز ہوگا  اور آمدنی بھی حرام نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں