بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سےایڈوانس تنخواہ نکلوانےکاحکم


سوال

 سرکاری ملازم بوجۂ بینک کے سہولت دینےیا بوجۂ مجبوری نیشنل بینک آف پاکستان سے کچھ تنخواہیں ایڈوانس نکلواتا ہے ،بعد میں مذکورہ بینک اپنی دی  ہوئی پیشگی تنخواہوں سے زائد رقم وصول کرتا ہے، آیا بینک کی جانب سے دی ہوئی رقم قرض ہے؟ یا بینک کی جانب سے دی ہوئی رقم پیشگی تنخواہیں ہیں؟

دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود مذکورہ فتوی سے ابہام دور فرمائیں:

فتوی مندرجہ ذیل ہے:

"معاملات >> سود و انشورنس سوال نمبر: 58677 عنوان: نیشنل بینک آف پاکستان سرکاری ملازمین کو ۲۰ ایڈوانس تنخواہ دیتاہے ، لیکن اس میں سود شامل ہوگا جو ۱۹ فیصد ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ؟

"سوال: میں ایک کار خریدنا چاہتاہوں، لیکن میری اتنی تنخواہ نہیں ہے کہ میرا خواب پورا ہو اور میری فیملی کو آرام ملے۔جیسے اسکول لے جانا، لاناوغیرہ، اس مقصد کے لئے ایک آسان حل جو ممکن ہوسکتاہے یہ ہے کہ (اور اس سے میرے بہت سارے رفقائے کار نے یہ فائدہ لیا ہے) نیشنل بینک آف پاکستان سرکاری ملازمین کو ۲۰ ایڈوانس تنخواہ دیتاہے ، لیکن اس میں سود شامل ہوگا جو ۱۹ فیصد ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ؟ براہ کرم، وضاحت فرمائیں۔

جواب نمبر: 58677 بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 422-387/Sn=7/1436-U

صورت مسئولہ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مذکورہ فی السوال سہولت سے ملازمین کو فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے، شرعاً یہ ”سودی معاملہ“ نہیں ہے؛ اس لیے کہ بینک جو رقم دیتا ہے، وہ قرض نہیں، بلکہ پیشگی تنخواہ ہے اور جو رقم بہ نام سود بینک ملازمین کی تنخواہ سے کاٹ لیتا ہے ،وہ درحقیقت سود نہیں ہے، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اتنی فیصد تنخواہ کم کردی گئی۔

"هو (القرض) لغة: ما تعطیه لتتقاضاہ وشرعاً : ما تعطیه من مثلي لتتقاضاہ."

(درمختار، ۷/۳۸۸، ط: زکریا)

"هو (الربا) لغة مطلق الزیادة، وشرعاً فضل ولو حکما․․․ خالٍ عن عوض․․․ بمعیار شرعي․․․ مشروط ذلک الفضل لأحد المتعاقدین في المعاوضة إلخ."

(درمختار مع الشامي: ۳۹۸۷، ط: زکریا)

وانظر: أحسن الفتاوی (۷/۳۰۳، کتاب الإجارة)

واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند"

براہ کرم بندہ کی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہےکہ کسی بھی  ملازم کے لیےبینک سے پیشگی تنخواہ نکلوانا جائز نہیں، کیوں کہ بینک کی طرف سےملازم کو ملنےوالی ایڈوانس تنخواہ دراصل بینک کی طرف سےقرض ہوتاہےاوربعدمیں بینک اپنی دی ہوئی پیشگی تنخواہ سےجو زائد رقم وصول کرتی ہےوہ"سود" ہے،جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآن و حدیث میں سودی لین دین کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں آئی ہیں،سودی معاملہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔

 قرآن کریم میں ہے:

" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹)."[ البقرة :278،279]

ترجمہ: "اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سودکا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگےتو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے،  نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ  کوئی تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ "(بیان القرآن )

حدیث شریف  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آ كل ‌الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: "هم سواء".

(مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیمی)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے ، کھلانے والے ، (سُود کا حساب) لکھنے والے  اورسود پر گواہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔ ‘‘

 

نیزبینک سےایڈوانس تنخواہ نکلوانےکےحوالے سےدارالعلوم دیوبندکاحالیہ فتوی بھی عدمِ جواز کاہے۔

دارالعلوم دیوبندکافتوی ملاحظہ ہو:

"سوال نمبر: 167363

عنوان:سود كے ساتھ ایڈوانس تنخواہ لینا؟سوال:میں سرکاری ملازم ہوں اوربینک سے بیس تنخواہ ایڈوانس میں لون کے طورپر لینا چاہتاہوں جس پر انٹریسٹ بھی لگے گا، اگر مجبوری ہوتو لینا کیسا ہے؟

جواب نمبر: 167363

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 353-309/D=05/1440

تنخواہ تو آپ کو اپنے محکمہ سے ملتی ہوگی خواہ وہ محکمہ بینک کے ذریعہ ادا کرتا ہو لیکن بینک کے ذمہ آپ کی تنخواہ لازم نہیں ہے جسے آپ پیشگی لینا چاہ رہے ہیں پس حاصل سوال کا یہ ہوا کہ بیس تنخواہ کے بقدر رقم آپ بینک سے بطور قرض لینا چاہ رہے ہیں جس پر سود بھی ادا کرنا ہوگا۔ پس حکم یہ ہے کہ سود ادا کرکے قرض لینا جائز نہیں کیونکہ جس طرح سود کا لینا ناجائز اور گناہ ہے اسی طرح سود کا ادا کرنا بھی گناہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں