بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے سودی قرضہ لینا


سوال

میں ایک بنک میں سونے کے زیورات دے کہ قرض حاصل کرنا چاہتا ہوں  جس میں بنک میرے زیورات کا حساب کر کے کل قیمت کا 60 فیصد مجھے رقم دے گا اور جب بھی میں وہ رقم واپس کروں گا تو مجھے میرے زیورات واپس مل جائیں  گے اور اس کے ساتھ  ساتھ  بنک میرے سے ہر دن کے حساب سے مجھے دی گئی رقم پر  پیسے چارج کرے گا. اور مجھے یہ پیسے ایک سے دو مہینے کے لیے ضرورت ہو گی جو  میں نے کاروباری مقصد کے لیے استعمال کرنے ہیں.  کیا میرا یہ پیسے بنک سے لینا جائز ہے یا میں یہ پیسے کیسی صورت میں کاروباری مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہوں؟

جواب

مذکورہ صورت سود کی ہے، اور سودی قرض لینا اور دینا دونوں حرام ہے؛  لہذا یہ معاملہ کرنا ناجائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 166):
"وفي الأشباه: كل قرض جرّ نفعًا حرام". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں