بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے قرض لی ہوئی رقم پر زکات کے وجوب کا حکم


سوال

ہم نے بینک سے قرضہ (لون ) لیا ہے گھر لینے کے لیے 50 لاکھ ، تو  چوں کہ وہ پیسہ بینک کو لوٹانا بھی پڑے گا؛ اس لیے گویا کہ ہم بینک کے قرض دار ہیں  تو کیا اس پیسے پر بھی زکوة  واجب ہوگی یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ بینک جو مختلف کاموں کے لیے قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے،   جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے، اس لیے آپ کو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اپنا ذاتی گھر خریدنے کے لیے سودی قرضہ لینے کے بجائے کوئی دوسرا  جائز متبادل راستہ (مثلاً غیر سودی قرضہ ) اختیار کرتے اور جب تک غیر سودی قرضہ نہ ملتا اس وقت تک کرائے کے مکان میں ہی گزارا  کرنے کی کوشش کرتے، لہٰذا اب آپ پر لازم ہے کہ جلد سے جلد بینک کا قرض واپس لوٹاکر اس سودی قرضہ سے جان چھڑائیں اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے اس حرام فعل پر ندامت کے ساتھ استغفار و توبہ کریں۔

باقی  زکات کے  بارے میں حکم یہ  ہے کہ قرض لی ہوئی رقم پر زکات کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی ہے؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  جو رقم آپ نے بینک سے بطور قرض لی ہے  اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

"(و سببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں