میں امریکہ میں رہتاہوں،یہاں پر اسلامک بینک سے لون(قرض) پہ گھر لینا جائز ہے یا نہیں؟کافی لوگوں نے لیےہیں، اور جواز دیتے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی طرف سے( approve)اجازت ہے۔ راہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ بینک سے سودی لون (قرض) پہ گھر لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ سود لینا اور سود دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے،خواہ امریکہ یا کسی اور غیر مسلم ملک میں ہی کیوں نہ ہو۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."
(کتاب المساقاۃ والمزارعة، باب الربا، ج: 2، ص: 1052، رقم: 4092، ط: بشري)
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشادہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ."
ترجمہ: "اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پرکوئی ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو"۔
الدر المختار میں ہے:
"كل قرض جر نفعا ،حرام."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل فی القرض، ج: 5، ص: 166، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409100386
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن