بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے گاڑی فائنینس کروانا


سوال

مجھے گاڑی کی سخت ضرورت تھی اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جو گاڑی کیش  پر  لے سکوں،  اس  لیے  میں نےگاڑی فائنینس کرایا ہے،  اب مجھےہر مہینے کچھ پیسے جمع کرنا ہوتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر آپ نے کسی بینک کے ذریعہ گاڑی خریدی ہے اور  اب آپ اس کی ماہانہ اقساط جمع کراتے ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ روایتی بینک تو قسط کی تاخیر پر جرمانہ وصول کرتے ہیں اور مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جب کہ مروجہ غیر سودی بینک جرمانے کے عنوان سے اضافی رقم وصول کرنے کے بجائے جبری صدقے کا التزام کرواتے ہیں، اس شرط کی وجہ سے بھی عقد ناجائز ہوجاتاہے، نیز بینک سے قسطوں پر گاڑی لینے میں ایک عقد میں دوسرا عقد داخل کرنا لازم آتاہے، جو از روئے حدیث ممنوع ہے؛ اس لیے  بینک  سے  قسطوں پر خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

بینک کے علاوہ دیگر اداروں سے قسطوں پر گاڑی یا دیگر اشیاء لینا جائز ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے  (اگرچہ وہ قیمت نقدی معاملہ کی قیمت سے زیادہ ہو) اور یہ طے کرلیا جائے کہ خریداری نقد پر ہورہی ہے یا ادھارپر، اور ادھار کی مدت طے کرلی جائے، اور قسط کی مدت بھی متعین کردی جائے اور قسط میں تاخیر ہونے کی صورت میں کوئی اضافہ/ جرمانہ وصول نہ کیاجائے۔ 

اب  اگر آپ کا معاملہ بینک کے ساتھ ہوا ہے تو اگر اس معاملہ کو ختم کرنا ممکن  ہے تو آپ کو چاہیے کہ   اس معاملہ کو جلد از جلد  ختم کر دیں اور اگر یہ معاملہ ناقابلِ فسخ ہو تو اس سے توبہ و استغفار کریں اور  جتنا جلد ہوسکے اس سے چھٹکارہ حاصل کریں اور آئندہ ایسے غیر شرعی معاملات سے پرہیز کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں