بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کے بچے کو ٹیوشن پڑھا کر فیس لینا


سوال

میرے پاس ایک  بچہ ٹیوشن پڑھتاهے اور اس کے والد سودی بینک میں نوکری کرتے ہیں  تو بظاهر مجھے اس بچے کو پڑھانے کے عوض جو پیسہ ملتا ہے اس حرام نوکری سے ملی ہوئی تنخواہ ہی سے ہوگا،  کیا میرے لیے یہ فیس لینا جائز ہے ؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی بینک کے ملازم کے گھر اُس کے بچے کو ٹیوشن پڑھانے جاتا ہو اور اُس سے فیس وصول کرتا ہو تو ٹیوشن پڑھانے والا چوں کہ  اپنے پڑھانے کی فیس وصول کرتا ہے اور پڑھانا ایک جائز کام ہے ، اور اس تعلیم میں  ناجائز کام میں معاونت بھی نہیں ہے؛ اور مذکورہ صورت میں فیس میں دی گئی رقم (یعنی نوٹ کا سودی ہونا مصرح و ) متعین نہیں،  اس لیے ٹیوشن پڑھانے والے    کا بینک ملازم سے فیس وصول کرنا جائز ہو گا، تاہم اس میں کراہت ہوگی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 189):

"وإن كانا مما لايتعين فعلى أربعة أوجه: فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (وإن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) ونقدها (أو أطلق) ولم يشر (ونقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل: (وبه يفتى) والمختار أنه لايحلّ مطلقًا، كذا في الملتقى. و لو بعد الضمان هو الصحيح، كما في فتاوى النوازل. و اختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام، و هذا كله على قولهما."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں