بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کو مال بیچنا اور اس سے رقم لینا


سوال

میری  کریانہ  کی دکان ہے، اگر کوئی  ایسا شخص جو بینک میں کام کرتا ہو وہ سامان خریدنے آجائے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے پاس حرام مال ہے تو اس کو سودا  دےکر جو پیسے وہ دے گا اس کو لینا اور ذاتی ضروریات میں خرچ کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بینک ملازم اگر رقم کی ادائیگی کے وقت رقم کی حرمت کی صراحت  نہ کرتا ہو  (یعنی یوں نہ کہے کہ یہ رقم میں حرام مال سے ہی ادا کر رہاہوں) تو اس کو سودا بیچ کر اس سے رقم وصول  کرنا اور اس کو اپنے استعمال میں لانا آپ کے لیے جائز ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام."

(کتاب البیوع باب المتفرقات ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں