بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کی تنخواہ کو محنت کی کمائی سمجھ کر حلال کہنا غلط ہے


سوال

میرے بھتیجے ایک انشورنس کمپنی  اور  بینک میں ملازمت کرتے ہیں، جو خالص سودی ہیں،مگر ان کے والدین کا نظریہ ہے کہ وہ اپنی محنت کی تنخواہیں لیتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ ایک عمارت میں رہتے ہیں، کیا ان کا نظریہ درست ہے؟ میں اپنے آپ کو ان کے کھانے پینے سے کیسے بچاؤ ں کہ رشتہ داری میں دراڑ نہ پڑے؟

جواب

یہ نظریہ غلط ہے کہ وہ اپنی محنت کی تنخواہ لیتے ہیں،ایک حرام کام کو حلال سمجھنا کفر تک پہنچا دیتا ہے،؛ بینک  یا انشورنس کمپنی کی ملازمت  کرنا سودی معاملات میں معاون بننا ہے، گناہ کے کاموں میں تعاون کرنا قرآن وحدیث کی رو سے ناجائز ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی معاملات میں کسی بھی طرح  تعاون کرنے والوں پر  لعنت فرمائی ہے،لہذاآپ حکمت کے ساتھ اِنہیں یہ بات سمجھائیں کہ  آپ کے بیٹوں کی آمدن حلال نہیں،اور اِنہیں  کوئی متبادل حلال ذریعہ آمدن اختیار کرنے کی ترغیب دیں،پھر اگر وہ آپ کےلیے حلال کی رقم سے کھانے وغیر ہ کا انتظام کریں تو آپ کے لیے کھانا حلال ہے،بصورتِ دیگر آپ ان  کا کھانا کھانے سے اس طریقے سے  معذرت کرلیں  کہ اِن کی دل آزاری نہ ہو، ملحوظ رہے کہ رشتہ داری بچانےکی خاطر حرام مال سے  کھانا جائز نہیں ۔  

مشکاہ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء . رواه مسلم."

"ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اور سود کے معاملے کو لکھنے والے اور اس میں گواہ بننے والے پر اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، ج: 2، ص: 855، ط: المكتب الإسلامي )

وفي شرحه مرقاة المفاتيح:

"(عن جابر قال: لعن ‌رسول ‌الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع كما قال - تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما} [النساء: 10] (ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم، قال الخطابي: سوى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم كما كانا شريكين في الفعل، .....(وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي - صلى الله عليه وسلم - (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره (رواه مسلم) وأخرجه هو أيضا وأبو داود والترمذي وابن ماجه من حديث ابن مسعود."

(كتاب البيوع، باب الربا، ج: 5، ص: 1916، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع. ... لا يجيب دعوة الفاسق المعلن ليعلم أنه غير راض بفسقه، وكذا دعوة من كان غالب ماله من حرام ما لم يخبر أنه حلال وبالعكس يجيب ما لم يتبين عنده أنه حرام، كذا في التمرتاشي. ... آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(کتاب الکراہیۃ، باب ثانی عشر،ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۴۲، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں