بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کا اجتماعی قربانی میں حصے کا حکم


سوال

میرا ایک دوست بینک میں ملازم ہے، اب قربانی کا موقع ہے، لہذا میرے اس دوست نے  اجتماعی قربانی میں مطلوبہ رقم جمع کرادی ، دوسرے دن اس کی جمع کردہ رقم یہ کہہ کر واپس کردی گئی کہ آپ چوں کہ بینک میں ملازم ہے اور وہاں سودی کاروبار ہوتا ہے، آپ کی رقم کی وجہ سے دوسروں کی جمع کردہ رقم بھی حرام ہوجائے گی، مزید اس رقم سے حج وعمرہ بھی ادا نہیں کی جاسکتا، دیافت یہ کرنا ہے کہ بینک ملازم اپنی تنخواہ کی رقم سے قربانی ، حج وعمرہ ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟شریعتِ محمدیہ میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی میں اگر کوئی حرام آمدنی والا حصہ دار شامل ہو مثلاً بینک کا کوئی ملازم یا انشورنس کا کاروبار کرنے والا یا سودی کاروبار کرنے والا شریک ہو جس کا ذریعہ آمدنی مکمل حرام ہو یا اس کی  غالب آمدنی حرام ہو تو شرکاءمیں سے  کسی کی بھی قربانی نہیں ہوتی؛ اس لیے حرام آمدنی والے کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے،اور نہ ہی مال حرام سے حج یا عمرہ کیا جائے گا،اس لیے  کہ اللہ تعالیٰ حرام مال اپنے بارگاہ میں قبول نہیں کرتے،بلکہ حرام مال ثواب کی نیت کے بغیر فقراء میں تقسیم کرنا ضروری ہے، باقی اگر کوئی شخص مالِ حرام سے حج کرتا ہے تو اس کی گردن سے حج کا فریضہ ساقط ہوجائے گا، لیکن قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوگا، الغرض مذکورہ شخص کو چاہیے کہ اپنی بینک والی آمدنی سے اجتماعی قربانی میں حصہ نہ ڈالے،البتہ اگر ایسا آدمی کسی سے حلال رقم لے کر قربانی میں حصہ ڈالے گا تو اس کو اجتماعی قربانی میں شامل کرنا جائز ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، ‌‌باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله،ج:5، ص:99، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"‌ويجتهد ‌في ‌تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج. اهـ."

(‌‌كتاب الحج، ج:2، ص:456، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں