بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ملازم کے ساتھ کسی کاروبارمیں شراکت کرنا


سوال

زید ایک بینک ملازم (کیشئیر) ہے، کیا زید کے ساتھ بینک تنخواہ پہ بینک سے باہر کسی اور کاروبار میں شراکت کرنا جائز ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کے پاس حلال آمدنی موجود ہو اور اس آمدنی سے اس کے لیے کاروبار کرنا ممکن ہو تو اس کو چاہیے کہ کسی حرام آمدنی والے شخص کے ساتھ کاروباری شراکت نہ کرے بلکہ اکیلے ہی کاروبار کرے، لیکن اگر اس کی آمدنی کم ہو جو کاروبار کے لیے کفایت نہ کر سکتی ہو  تو ایسی صورت میں بھی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ کسی حلال آمدنی والے شخص کو کاروبار میں شریک بنایا جائے، لیکن اگر ایسا کوئی شخص بھی دست یاب نہ ہو سکے تو مجبورًا  بینک کیشئر سے  سرمایہ لے کر اس کو اپنے  ساتھ کاروبار میں شریک  کرنے کی گنجائش ہوگی،  لیکن اس صورت میں جس شخص (بینک ملازم) کو شریک کیا جا رہا ہے اس کو چاہیے کہ کسی  حلال آمدن والے سے  قرض لے کر کاروبار میں شریک ہو جائے اور  اس قرض کو اپنے ذخیرہ سے ادا کر دے۔ 

امداد الفتاوی میں ہے:

"جن کا مال خراب ہے وہ کسی سے قرض لے کر شرکت کر لیں ، پھر وہ قرض اپنے ذخیرہ سے ادا کریں۔ اور بدون اس تدبیر کے خزانہ میں جمع کرنا یا نوٹ خریدنا اس خرابی کا رافع نہیں ہو سکتا۔"

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (24/ 108):

"و الاحتيال للهروب عن الحرام و التباعد عن الوقوع في الآثام لا بأس به، بل هو  مندوب إليه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں