کیا بینک میں نوکری جائز ہے؟
واضح رہے کہ بینک کے اکثر معاملات سود ی لین دین اور غیر شرعی عقود پر مشتمل ہوتے ہیں، لہذا بینک میں کسی قسم کی ملازمت کرنا شرعاً جائز نہيں ہے۔
صحيح مسلم میں ہے:
"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء."
(با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج:2، ص:27، نسخه هنديه)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح
وفي المنتقى: امرأة نائحة أو صاحبة طبل أو زمر اكتسبت مالا ردته على أربابه إن علموا وإلا تتصدق به، وإن من غير شرط فهو لها: قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط."
(ج:6، ص:55، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101148
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن