بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں کیشیر کی نوکری کرنے کا حکم


سوال

مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ بینک میں کیشیر کی نوکری کرنا ٹھیک ہے یا غلط ہے؟ میں نے بیان میں سنا تھا کیشیر کی نوکری ٹھیک نہیں ہے، سود کے پیسےجمع کرنے اور نکالنے میں ہاتھ کیشیر کا ہوتا ہے، تو کیا کیشیر بھی سود میں شامل ہو جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بینک میں کیشیر یا کسی بھی قسم کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز اور حرام ہے، اور بینک ملازم سود لینے، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔

لہذا بینک میں کیشیر کی نوکری کرنا شرعا نا جائز و حرام ہے، یہ بھی سود کے گناہ میں شامل ہے۔

قرآنِ مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." (المائدة، 2)

"ترجمہ: اور گناہ وزیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالی سے ڈراکرو بلا شبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والے ہیں"۔ (بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

"ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے اور سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔"

(کتاب المساقاۃ والمزارعة، باب الربا، ج: 2، ص: 1052، رقم: 4092، ط: بشري)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں