بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں نوکری کرنا


سوال

فوریکس ٹریڈنگ کا فتویٰ میں نے پڑھا اور سمجھا بھی۔ جتنے بھی بینک ہیں جو مائیکرو فنانس کے کاروبار کرتے ہیں، کیا ان بنکس میں نوکری کرنا جائز ہے جب کہ ان کا سارا انحصار لوگوں کو چھوٹے پیمانوں پر قرض دینا اور مطلوبہ رقم کے علاوہ سود لینا ہوتا ہے؟

میں خود ایک مائیکرو بینک میں نوکری کرتا ہوں، اسلام کے حوالے سے آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے رہنمائی کی جائے؟

جواب

مروجہ بینکوں کا طریقۂ تمویل چوں کہ سودی ہے (جیسا کہ آپ نے سوال میں ذکر بھی کیا ہے) اور بینک اپنے ملازمین کو تنخواہ سودی کمائی سے ادا کرتا ہے، نیز بینک کی ملازمت میں سودی معاملات میں تعاون ہے، اس لیے بینک میں کسی بھی قسم کی ملازمت  حلال نہیں۔ قرآنِ مجید  میں سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔

[البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

لہٰذا قرآن و سنت کی رو سے بینک کی نوکری کرنا ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں