بینک کے کن شعبوں میں ملازمت کرنا جائز ہے اور کیا بینک میں ملازمت کرنے والے شخص کے پیسوں سے کھانا جائز ہے؟ (وہ شخص بینک کے Import Exportڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہے )
واضح رہے کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سود کی حرمت اور مذمت بڑی سختی سے بیان کی گئی ہے، لہٰذا قرآن و حدیث کی رو سے سود لینا، دینا، سودی معاملہ لکھنا یا اس میں گواہ بننا اور تعاون کرنا سب ناجائز اور حرام ہے۔ مروجہ تمام بینکوں کا مدار سودی نظام پر ہی ہے اور وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی سود کے پیسوں سے دیتے ہیں؛ لہٰذا بینک میں کسی بھی قسم کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہےلہذا صورت مسئولہ میں بینک کے امپورٹ ایکسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنا ناجائز اور حرام ہے اور ایسے شخص کی کمائی بھی حلا ل نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله."(البقرۃ :۲۷۸ ، ۲۷۹)
ترجمہ:"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔"
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"يمحق الله الربا ويربي الصدقات."(البقرۃ:۲۷۶)
ترجمہ:" اللہ سود کو مٹاتے ہیں ، اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔"
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: «هم سواء."
(کتاب البیوع ، باب الربا جلد ۲ ص: ۸۵۵ ط: المکتب الاسلامي)
ترجمہ :"حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر ، سود دینے والے پر ، سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے پر ، اور اس کے گواہوں پر ، سب ہی پر لعنت فرمائی ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں ) برابر ہیں ( اگرچہ مقدار کے اعتبار سے مختلف ہوں۔"
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100739
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن