بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں ملازمت کرنے والے کے ساتھ بیٹی کا رشتہ کرانے کا حکم


سوال

گزارش ہے کہ میری بیٹی کا شادی کے لیے رشتہ آیا ہے، لڑکا بینک میں ملازمت کرتا ہے، جب کہ میری بیٹی بینک کے علاوہ ایک پرائیویٹ ادارہ میں ملازمت کرتی ہے، دینی اعتبار سے قرآن وسنت کی روشنی میں میری را ہ نمائی فرمائیں کہ کیا بینک ملازمت کرنے والے لڑکے سے میں اپنی بیٹی کی شادی کرنے کی اجازت دے دوں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بینک کا  مدار سودی نظام پر ہے، اور سود کا لینا دینا ، لکھنا ، یا  اس میں گواہ بننا سب  ناجائز وحرام ہے، اور بینک میں ملازمت کرنے والا اسی سودی لین دین یا اس کے معاونت میں مصروفِ عمل ہوتا  ہے ؛ اس لیے اس کی کمائی حرام ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں بینک ملازم  اپنی بیٹی کا نکاح کروانے کی صورت میں جب وہ نان ونفقہ اور تحفے تحائف اور دعوتوں کا انتظام اپنی اسی کمائی سے کرے گاتو ایسی صورت میں اس حرام آمدنی کی نحوست کا اثر لازماً پڑے گا، لہذا عافیت اسی میں ہے کہ حلال روزگار والے خدا ترس مسلمان کے ساتھ رشتہ کو ترجیح دی جائے۔

قرآن کریم میں ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(278)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(279)."(سورۃ البقرۃ)

حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌جابر قال: « لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء »."

(باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:3، ص:1219، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں