بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں جاب کا حکم


سوال

میزان بینک میں کام کرنا مناسب ہے ؟اور وہاں کی آمدنی یا سیلری حلا ل ہے ؟

جواب

مروجہ تمام بینکوں کا مدار سودی نظام پر ہے اور وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی سود کے پیسوں سے دیتے ہیں؛  لہٰذا کسی بھی بینک میں( چاہے میزان ہو یا کوئی اور ہو) کسی بھی قسم کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہوگی ۔

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»."

(صحیح مسلم ،باب لعن آکل الربا،ج:2،ص:1219،داراحیاء التراث العربی)

"ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔"

مرقاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء)

  (عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا» ) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع كما قال - تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما} [النساء: 10](ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم، قال الخطابي: سوى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم كما كانا شريكين في الفعل، وإن كان أحدهما مغتبطا بفعله لم يستفضله من البيع، والآخر منهضما لما يلحقه من النقص، ولله عز وجل حدود فلا تتجاوز وقت الوجود من الربح والعدم وعند العسر واليسر، والضرورة لا تلحقه بوجه في أن يوكله الربا، لأنه قد يجد السبيل إلى أن يتوصل إلى حاجة بوجه من وجوه المعاملة والمبايعة ونحوها قال الطيبي رحمه الله: لعل هذا الاضطرار يلحق بموكل فينبغي أن يحترز عن صريح الربا فيثبت بوجه من وجوه المبايعة لقوله - تعالى:{وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة: 275] لكن مع وجل وخوف شديد عسى الله أن يتجاوز عنه ولا كذلك الآكل (وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره."

(کتاب البیوع،باب الربا،ج:5،ص:1915،دارالفکر)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ کریں :

میزان میں بینک میں ملازمت کرنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں