بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں جمع کروائی ہوئی رقم پر ملنے والے منافع سے گھر یا گاڑی خریدنا


سوال

بینک میں جمع کروائی گئی رقم پر ملنے والے منافع سے کیا ہم گھر، یا گاڑی خرید سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،اور جس طرح سودی رقم کا استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح سودی رقم کو وصول کرنا بھی حرام ہے، نیز بینک کی طرف سے اکاؤنٹ میں یہ رقم ڈالے جانے کے باوجود آدمی اس سودی رقم کا مالک نہیں بنتا ہے ، چناں چہ کسی بھی صورت اس سودی رقم کا اکاؤنٹ سے نکلوانا اور وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، چاہے اپنے استعمال کی نیت ہو یا کسی ضرورت فرد یا ادارے کو دینے کی نیت ہو۔

البتہ اگر   کسی شخص کو مسئلہ معلوم نہ تھا اور اس نے یہ رقم وصول کر لی ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ پہلے تو وہ یہ کوشش کرے کے جہاں سے یہ سودی رقم لی ہے اسی کو واپس کردے، لیکن اگر باوجود کوشش کے اسی ادارے یا شخص یا اس کے ورثہ کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کسی ضرورت مند مستحقِ زکاۃ غریب شخص کو یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر دے دے، اس سود کو اپنے استعمال میں لینا جائز نہیں ہے۔

لبصورتِ مسئولہ بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی شرعاً جائز نہیں ہے، علماء نے ضرورت کی بنا پرکرنٹ اکاؤنٹ   کھلوانے کی اجازت دی ہے؛اس لیے آپ سب سے پہلے اس سیونگ  اکاؤنٹ کو  ختم کروائیں، اب تک جو  اس اکاؤ نٹ سے نفع جمع ہوا وہ شرعاً سود ہے، اور اس سے توبہ  و استغفار کا طریقہ  یہ ہے کہ اگر بینک سے وصول نہیں کیا تو وصول نہ کریں، اگر کرلیا ہے تو ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق کے حوالے کردے،اس سے گھر یا گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے، اگر خود استعمال کر لیے ہیں تو توبہ و استغفار کے ساتھ اتنی رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں۔

قرآن مجید میں ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ *}

[البقرة: 278، 279]

 وفي الأشباه:

كل قرض جر نفعا فهو حرام.

(5/ 166 ط:سعید)

کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے:

أما في إصطلاح الفقهاء فهو زيادة احد البدلين المتجانسين من غير ان يقابل هذه الزيادة عوض.

(کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة، ج:2، ص:227،ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

تفسیر قرطبی میں ہے:

إن سبيل التوبة مما بيده في الاموال الحرام إن كانت من ربا، فليردها علي من اربي عليه، ويطلبه إن لم يكن حاضرا فإن أيس من وجوده فليتصدق بذالك عنه. (الجامع لاحکام القرآن، ج:3، ص: 348، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

والسبيل في المعاصي ردها وذالك ههنا برد الماخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به ان لم يعرفه.

(الفتاوی الهندیة، ج:5، ص: 349، ط: حقانیة) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144112200815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں