بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک میں امامت کرنے کا حکم


سوال

کیافرماتےہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کوکنونشنل بینک میں امامت ملی ہے ، یعنی وہاں ایک جگہ نمازکےلیےمختص کی ہے، یہ شخص وہیں امام ہے ، اوراس امامت کی بناءپرجوتنخواہ اس شخص کو دی جائے گی اس کاکیاحکم ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔

 

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےسودی لین میں کسی بھی طرح کاتعاون اورتعلق ہونے کی صورت میں وہ نوکری اورملازمت جائزنہیں ہوتا، صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ بینک میں امامت کرنےوالےکابینک کےكسي سودی لین دین سے واسطہ نہیں ہوتا،اس لیےامام جب نمازپڑھاکراپنی ذمہ داری پوری کرلیتاہےتووہ اجرت کامستحق ہوجاتاہے، اب اگربینک سودی آمدنی سے امامت کی تنخواہ دیتاہےتوکراہت کےساتھ تنخواہ جائز ہے اور  امام صاحب بینک  والوں سے کہہ دیں کہ بینک والے کسی سے حلال رقم قرض لے کر امام صاحب کو تنخواہ دیں،  پھر کراہت بھی نہیں ہوگی۔

دررالحكام شرح مجلة الاحكام ميں هے:

"الأجير المشترك لايستحق الأجرة إلا بالعمل. أي لايستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله؛ لأنّ الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لايسلم له العوض و المعقود عليه هو العمل، أو أثره على ما بينا؛ فلا بدّ من العمل. فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر: المادة 424 الأجير المشترك 457/1  ط:دار جيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں