1۔ کیا بینک اکاؤنٹ کھولنا حلال ہے؟ اور اگر ہاں تو کن بینکوں کو ترجیح دی جاتی ہے؟
2۔کیا بینک کارڈز پر دی جانے والی رعایت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے؟
3۔ کیا بینک کی سہولیات جیسے کہ اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک کا استعمال حلال ہے؟
1۔اگر کوئی شخص اپنی رقم کی حفاظت کا بندوبست خود کرسکتا ہےتو اس کے لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ بینک کے کسی بھی اکاؤنٹ کا استعمال نہ کرے، تاہم اگرواقعی ضروت ہو تو ایسی صورت میں کسی بھی بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے۔اس میں کسی بینک کو ترجیح نہیں ہے ،جہاں اکاؤنٹ کھولنے میں سہولت ہو وہاں کھلوا لیا جائے ۔
2۔بینک کارڈز کا حکم یہ ہے کہ ضرورت کی بنا پربینک کا ڈیبٹ کارڈ بنانا اور اس کے ذریعہ ادائیگیاں کرنا جائز ہے، لیکن کریڈٹ کارڈ بنوانا اور اس کا ااستعمال کرنا سودی معاہدہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز ہی نہیں ہے۔
پھر ڈیبٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے جائز اور ناجائز ہونے میں درج ذیل تفصیل ہے:
3۔بینک کے اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک کا استعمال جائز ہے ؛ اس لیے کہ بینک میں رکھی رقم قرض کے حکم میں ہے اور قرض دینے والے کو مقروض سے اس قرض کے حصول کی اجازت ہوتی ہے ، اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک اس قرض کی وصولی اور اس قرض کی تحویل اور ارسال کو آسان بنانے کی مختلف صورتیں ہیں ،یہ قرض کے علاوہ کوئی ایسی مشروط اضافی چیز نہیں ہیں جن کا حصول قرض دینے والے کے لیے ممنوع ہو ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.
(قوله : كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة: وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."
(کتاب البیوع، باب المرابحة، فصل فی القرض (5/166، ط: ایچ ایم سعید)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
" وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لايعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه.
(وبينهما مشتبهات) : بكسر الموحدة أي: أمور ملتبسة غير مبينة لكونها ذات جهة إلى كل من الحلال والحرام."
(کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال،ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۸۹۱،دار الفکر)
فقط اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101086
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن