1۔کیا بینک میں سیکیورٹی گارڈ کی نوکری جائز ہے ؟
2۔کیا جس بنک کا منافع ہر مہینے کی آمدن کے مطابق کسٹمر کو دیئے جائیں، اور فکس منافع نہ ہو، تو کیا یہ جائز ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں بنک میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے ،اس لیے کوئی اور جائز ملازمت اختیار کریں۔
2۔کسی بھی شخص کی طرف سے بینک میں رکھی گئی رقم پر اس کو جو منافع یا رقم ملتی ہے (چاہے وہ ہر ماہ کی آمدن کے اعتبار سے ہو ،یا فکس ہو)وہ سود کے حکم میں ہے ،جو کہ حرام اور ناجائز ہے ۔
قرآنِ کریم میں ہے :
"{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}." [المائدة: 2]
ترجمہ:" اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔"(از بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."
(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:166، ط:سعيد)
تفسیرِ قرطبی میں ہے :
"والربا الذي عليه عرف الشرع شيئان: تحريم النساء، والتفاضل في العقود وفي المطعومات على ما نبينه. وغالبه ما كانت العرب تفعله، من قولها للغريم: أتقضي أم تربي؟ فكان الغريم يزيد في عدد المال ويصبر الطالب عليه. وهذا كله محرم باتفاق الأمة. الثانية- أكثر البيوع الممنوعة إنما تجد منعها لمعنى زيادة إما في عين مال، وإما في منفعة لأحدهما من تأخير ونحوه. ومن البيوع ما ليس فيه معنى الزيادة، كبيع الثمرة قبل بدو صلاحها، وكالبيع ساعة النداء يوم الجمعة، فإن قيل لفاعلها، آكل الربا فتجوز وتشبيه."
(سورۃ البقرۃ،ج:۳،ص:۳۴۸،دارالکتب المصریة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411101035
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن