عام بنک میں بطور چوکیدار، کلینر یا ٹی بوائے ڈیوٹی کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور سود کا لینا دینا، لکھنا ،اس میں گواہ بننا یا کسی قسم کا تعاون کرنا سب ناجائز اور حرام ہے، اور بینک ملازم سود لینے ، دینے یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں بینک کی ملازمت ناجائز ہے، خواہ وہ کسی بھی شعبہ میں ہو، اور اس ملازمت سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہے، اس لیے کہ بینک کے علاوہ کسی اور جگہ جائز ملازمت تلاش کرنی چاہیے، اور سود کی گندگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے ، کیوں کی حرام کے مقابلے میں حلال مال تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اس میں سکون اور برکت ہوتی ہے، جب کہ حرام مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو اس میں بے برکتی، تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة: 278، 279]
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔(از بیان القرآن)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ} [البقرة: 276]
ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتے ہیں ، اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔(از بیان القرآن)
ارشاد باری تعالی ہے:
{ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]
ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)
حدیث مبارکہ میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»."
(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار احیاء التراث ، بیروت)
(مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور سودی معاملہ پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ سب برابر ہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل: رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان".
(مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 246، ط؛ قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201623
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن